انسانی حقوق کی عالمی صورتحال، امریکی رپورٹ کا اجراء
12 مارچ 2010امریکہ کے دفتر خارجہ میں انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ مائیکل پوسنر کے بقول : ’’یہ رپورٹ ہر کسی کو پسند نہیں آتی تاہم اسے ہر کوئی پڑھتا ضرور ہے۔‘‘ سن 2009 ء کی انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق اس رپورٹ میں 194 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ امریکی رائے میں یہ رپورٹ ملے جُلے رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ بہت سے ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ عالمی سطح پر انسانوں کو ان کے حقوق کا تحفظ پہنچانے کے لئے موثر اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔ ہلیری کلنٹن کہتی ہیں: ’’تمام انسانوں کی عزت اور ان کے حقوق کے تحفظ کے بغیر دنیا میں امن نہیں ہو سکتا۔‘‘
یہ رپورٹ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے ضمن میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس رپورٹ میں شامل منفی فہرست میں سب سے اوپر نام ہیں روایتی مشتبہ ممالک، چین ، ایران، کیوبا، شمالی کوریا اور سوڈان کا ہے۔ اس امریکی رپورٹ کے مطابق چین میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری کے بجائے بدتری رونما ہوئی ہے۔ حکومتی مخالفین کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی ہیں اور ثقافتی اور مذہبی اقلیتوں کو زیر دباؤ رکھا جاتا ہے۔
ایران کو اس رپورٹ میں اس لئے ہدف تنقید بنایا گیا ہے کہ وہاں حکومت، احتجاج اور مظاہرے کرنے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آتی ہے۔ کیوبا میں وہاں کی جیلوں کی نا گفتہ بہ صورتحال اور قیدیوں کی بھوک ہڑتال کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے بہت زیادہ تنقید کی گئی ہے۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ کے ماہرین یورپ کی طرف بھی خاصی تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ مائیکل پوسنر کا کہنا ہے: ’’یورپ میں مسلمانوں کو بہت شدید امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہاں نفرت کی بنیاد پر جرائم پائے جاتے ہیں۔
پوسنر نے سوئٹزرلینڈ میں میناروں والی مساجد پر عوامی اکثریتی رائے سے لگائی جانے والی پابندی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق امریکہ کی یہ تازہ ترین رپورٹ کے کئی صفحے جرمنی کی صورتحال کی نذر بھی کئے گئے ہیں۔ ‘‘
’’جرمنی کا قانونی نظام مجموعی طور پر بہت مضبوط ہے۔ اس کے باوجود وہاں مسائل پائے جاتے ہیں مثلاً امتیازی سلوک سے متعلق۔‘‘
جرمنی میں سائنٹولوجی چرچ اور مسلمان خواتین اساتذہ کے دوران درس ہیڈ اسکارف یا سر پر رومال باندھنے پر پابندی جیسے چند بنیادی مسائل کو اس رپورٹ میں اجاگر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی غیر ملکیوں کے خلاف نفرت اور یہود دشمن جذبات کو بھی تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی رپورٹ میں نئیونازیز اور دائیں بازو کے دیگر گروپوں کے اجتماع پر قدغن کا ذکر بھی موجود ہے۔
ناقدین کی طرف سے واشنگٹن حکومت سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق اس رپورٹ میں دوسرے ممالک کی طرف تو انگلی اٹھا رہی ہے تاہم اپنے ہاں پائی جانے والی صورتحال پر غور کیوں نہیں کرتی؟ اس کا جواب امریکی وزارت خارجہ نے یہ دیا ہے کہ ’ ایسا ہم ضرور کرتے ہیں تاہم دیگر رپورٹوں میں الگ مواقعوں پر‘۔
رپورٹ : کشور مصطفیٰ
ادارت : عاطف توقیر