انسانی سرگرمیاں بھی پاکستان کے شدید سیلاب میں قصور وار
7 ستمبر 2010پاکستان میں سیلاب نے وسیع و عریض علاقے کو متاثر کیا ہے۔ شمال کے پہاڑی علاقوں سے لے کر جنوب کے میدانی علاقوں تک ملک کا بیس فیصد حصہ زیرِ آب آیا ہے۔ یہ رقبہ یورپی ملک اٹلی کے مجموعی رقبے کے برابر بنتا ہے۔ سلیم اللہ کا تعلق اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یواین ڈی پی سے ہے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کے لئے محض انسانی سرگرمیوں کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا:’’اس آفت کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ انسان کا کردار اُس میں بیس، تیس فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا۔‘‘
لیکن اگر انسان کا کردار اتنا بھی ہو تو اِس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ مثلاً شمالی پاکستان کے اُن علاقوں میں، جہاں سے پانی نیچے آ کر دریاؤں میں شامل ہوتا ہے، بے شمار درخت کاٹے جا چکے ہیں۔ اگرچہ اِس سلسلے میں کوئی قطعی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ماہرین کے درمیان اِس بات پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ 1990ء کے بعد سے جنگلات کی کٹائی کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آج کل پاکستان کا محض پانچ فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔
خاتون صحافی رِینا سعید خان کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ خاص طور پر ماحول سے متعلقہ موضوعات پر لکھتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بارش ہونے کی صورت میں جنگلات کی کٹائی براہِ راست اتنے شدید سیلاب کا باعث بنی:’’ہمیں ایسی رپورٹیں مل رہی ہیں کہ ٹمبر مافیا کی جانب سے اِس علاقے میں بہت سے درخت کاٹے گئے۔ یہ لوگ درختوں کے بڑے بڑے تنے دریا میں پھینک دیتے تھے۔ وہ لکڑی ایک سے دوسری جگہ پہنچانے کے لئے دریا کو استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ جب سیلاب آیا تو یہ تنے پانی کے اندر میزائلوں کی شکل اختیار کر گئے۔ یہ جا کر مکانوں اور پُلوں سے ٹکرائے اور اِنہوں نے اقتصادی ڈھانچے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔‘‘
شمالی پاکستان میں یہ حالت تھی تو جنوبی پاکستان میں، خاص طور پر صوبہء سندھ میں دریائے سندھ کے راستے میں کاشتکاروں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور اُنہوں نے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی کہ جہاں سے دریا میں آنے والا اضافی پانی گزر سکتا۔ اِس کی وضاحت کرتے ہوئے رینا سعید خان بتاتی ہیں:’’جنوب میں پورے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ دونوں کناروں پر پہلے بہت گھنا جنگل ہوا کرتا تھا۔ گزرے برسوں کے دوران لوگوں نے اِن جنگلات کو کاٹ پھینکا اور وہاں فصلیں اُگانا شروع کر دیں کیونکہ یہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ یہ زمین حکومت کی ملکیت تھی، جو اُس نے کاشتکاروں کو پٹے پر دینا شروع کر دی۔‘‘
ایک اور مسئلہ یہ ہوا کہ اِس علاقے میں پُشتے باندھنے کا سلسلہ روک دیا گیا کیونکہ دریا میں سارا سال پانی نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا۔ یہ سارا پانی اُدھر ہی استعمال ہو جاتا تھا، جہاں سے پانی آ رہا ہوتا تھا۔ رینا سعید خان کے مطابق:’’کوٹری بیراج سے آگے تو دریا درحقیقت ایک جوہڑ کی سی شکل اختیار کر جاتا تھا، عملاً وہاں سے آگے یہ دریا جاتا ہی نہیں تھا۔‘‘
اب وہ سارا علاقہ، جہاں پہلے سمندر کا نمکین پانی در آتا تھا، سیلاب کی زَد میں آ چکا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ موسموں کی شدت میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ ایسے میں ماحولیات کے ماہرین کے خیال میں حالیہ قدرتی آفت سے یقینی طور پر کچھ سبق سیکھے جانے چاہئیں۔ ایک تو نئے جنگلات لگائے جانے چاہییں اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ زمین کےاستعمال میں آئندہ زیادہ احتیاط برتی جانی چاہئے۔ رینا سعید خان کے خیال میں کچھ لوگوں کو شاید کہیں اور بسایا جانا پڑے گا:’’جو مقامات دریا سے بہت ہی قریب تھے، بہتر ہو گا کہ اُنہیں دوبارہ نہ بسایا جائے۔‘‘
ماہرین کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے سلسلے میں کی جانے والی پیشگی تیاریوں کو بھی بہتر بنایا جانا ضروری ہے۔ دریا کے بہاؤ کی سمت بسنے والوں کو سیلاب آنے کی پیشگی اطلاع دینے کے نظام کو بھی مزید بہتر بنایا جانا چاہئے۔ یو این ڈی پی کے سلیم اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مزید چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جانے چاہئیں تاکہ اُن میں اگلی ممکنہ خشک سالی میں استعمال کے لئے پانی ذخیرہ کیا جا سکے۔
رپورٹ: تھوماس بیرتھ لائن / امجد علی
ادارت: مقبول ملک