انسانیت کی خدمت کرنے والوں کے لئے اعزاز
17 دسمبر 2010اِس سال یہ انعام نائیجیریا اور برازیل کے تحفظ ماحول کے علمبرداروں کے ساتھ ساتھ نیپال کی ایک امدادی تنظیم اور اسرائیل کے ڈاکٹروں میں برابر برابر تقسیم کیا گیا۔ چھ دسمبر کو سٹاک ہولم میں سویڈش پارلیمان کے اندر منعقدہ تقریب میں نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے نیمو باسے بھی شریک تھے۔
نیمو باسے کو یہ ایوارڈ کس بنیاد پر دیا گیا، اِس حوالے سے وہ بتاتے ہیں:’’یہ ایک شاندار تقریب تھی اور اِس ایوارڈ کی اہمیت یہ تھی کہ یہ ہمیں ہماری اُن سرگرمیوں کے لئے دیا گیا، جو ہم نائیجیریا میں اور دُنیا کے دیگر علاقوں میں معدنی تیل کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے مظالم سے پردہ اُٹھانے کے لئے انجام دے رہے ہیں۔ ہم تیل نکالنے کے تباہ کن عمل کے خلاف عوام کو متحرک کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ماحول کو بچانے کا یہی راستہ ہے۔‘‘
متبادل نوبل انعام کہلانے والے اس انعام کی مالیت دو لاکھ یورو ہے اور یہ انعام اُن شخصیات یا منصوبوں کو دیا جاتا ہے، جو نوبل انعام کے زمرے میں نہیں آتیں یا جنہیں وہ انعام دیتے وقت نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ انعام معروف فلاحی کارکن اور ادیب ژاکوب فان اُکس کُول نے 1980ء میں جاری کیا تھا، جن کے پاس سویڈن کے ساتھ ساتھ جرمنی کی بھی شہریت ہے۔
اِس سال انعام پانے والوں میں بشپ ایروِن کوئٹلر بھی شامل تھے۔ وہ بنیادی طور پر آسٹریا سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اُن کے پاس برازیل کی بھی شہریت ہے اور وہ گزشتہ کئی برسوں سے وہاں کے قدیم مقامی باشندوں اور اُستوائی جنگلات کی حفاظت کے لئے سرگرمِ عمل چلے آ رہے ہیں۔
اسرائیلی فلاحی تنظیم فزیشنز فار ہیومین رائٹس بھی اِس متبادل نوبل انعام کی حقدار ٹھہری ہے۔ اِس تنظیم کے قیام کا سہرا اسرائیلی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر رُخاما مارٹن کے سر ہے۔ 1988ء کے اواخر میں، جب اسرائیلی قبضے کے خلاف شروع ہونے والی پہلی فلسطینی انتفاضہ کو بری طرح سے کچل دیا گیا تھا، ڈاکٹر رُخامہ مارٹن نے اپنے گیارہ ساتھی ڈاکٹروں کے ہمراہ جا کر غزہ کے حالات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔
وہ بتاتی ہیں:’’جو کچھ ہم نے وہاں دیکھا، وہ واقعی ہِلا دینے والا تھا۔ خاص طور پر مریضوں کی حالت بہت بری تھی۔ زیادہ تر بچے تھے، جن کے ہاتھ اور پاؤں ٹوٹے ہوئے تھے۔ چند ایک اپنے سروں پر لگنے والی لاٹھیوں کی ضربوں سے بے ہوش تھے۔‘‘
ڈاکٹر رُخامہ مارٹن کے مطابق یہ حالات دیکھنے کے بعد اُن کا اور اُن کے سبھی ساتھیوں کا خیال تھا کہ وہ خاموش تماشائی بنے نہیں بیٹھے رہیں گے اور اِسی لئے اِس تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی تاکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بسنے والے انسانوں کی طبی دیکھ بھال کی جا سکے۔
اِس سال کا رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ پانے والوں میں نیپال کے سماجی کارکن شری کرشنا اُپادھے بھی شامل ہیں۔ اُنہوں نے سپورٹ ایکٹیویٹیز فار پور پروڈیوسرز آف نیپال کے نام سے ایک تنظیم قائم کر رکھی ہے، جس کی مدد سے وہ اب تک اپنے ملک میں سینکڑوں منصوبوں کے تحت آبی فراہمی کے نظام، سڑکیں اور اسکول بنا چکے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ