انقرہ حکومت کا آئینی اصلاحات پر غور
14 مارچ 2010فوج کے اعلیٰ افسروں کے خلاف بغاوت کے حالیہ مقدمات کے باعث انقرہ حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان پہلے ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اب آئینی اصلاحات کے منصوبے سے حکومت اور عدلیہ کے درمیان بھی تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔
ترکی کے وزیر انصاف سعداللہ ایرگین نے ہفتہ کو ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی حکومت آئینی ترامیم کے لئے پارلیمان میں لازمی طور پر درکار دو تہائی اکثریت نہیں رکھتی اور اس حوالے سے عوامی حمایت کے حصول کے لئے ایک ریفرنڈم کرایا جائے گا۔
ترک عدلیہ کو سیکولر خیال کیا جاتا ہے جبکہ وزیر اعظم ایردوآن کی جماعت AKP کی جڑیں ایک کالعدم اسلامی تحریک سے ملتی ہیں۔ ان کی پارٹی سیاسی جماعتوں کو غیر قانونی قرار دینے کے عمل کو مشکل بنا دینا چاہتی ہے جبکہ ججوں اور دفتر استغاثہ کے اہلکاروں کی تقرریوں کے طریقہ کار میں بھی اصلاحات چاہتی ہے۔
وزیر انصاف سعداللہ ایرگین کہتے ہیں کہ حکومت کو عدلیہ کے موجودہ ڈھانچے پر اعتراض ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ موجودہ طریقہ کار کے تحت عدالتیں اپنے اختیارات سے تجاوز کرتی ہیں جبکہ پارلیمان کے اختیار کو پس پشت ڈال کر قوانین بناتی ہیں۔
ایرگین کا کہنا ہے کہ مجوزہ پیکیج میں آئین کی دس سے 15 شقوں میں ’فوری اور محدود‘ نوعیت کی ترامیم مطلوب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں ایسے قوانین بھی تجویز کئے گئے ہیں، جن سے آئینی عدالت کے کردار میں کمی کی جا سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ ترامیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے حوالے سے سخت ضوابط طے کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ملک میں 25 سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں، جو ایک مسئلہ ہے اور حکومت اس کے حل کے لئے پابندی کے عمل کو مشکل بنانا چاہتی ہے۔
دوسری جانب ملک کی سیکولر قوتوں کو حکمران جماعت AKP کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں آئینی عدالت کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ سیکولر حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت ریاست کو اسلامی رُوپ دینا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لئے عدالتوں کو اپنے ہمدرد ججوں اور ماہرین استغاثہ سے بھرنا چاہتی ہے۔
اُدھر آئینی عدالت کے سربراہ نے وزیر اعظم ایردوآن پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی حکومت کو اقتدار میں لانے کے ایک مبینہ منصوبے کے حوالے سے، فوجی افسروں اور ایک ماہر استغاثہ کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی کے لئے، آئینی اصلاحات کی طاقت کے بجائے اتفاق رائے کا راستہ اپنائیں۔
خیال رہے کہ رجب طیب ایردوآن کی جماعت AKP یورپی یونین کی حامی اور ملک میں کاروبار کے حوالے سے دوستانہ طرز عمل رکھتی ہے۔ اسے 2008ء میں ترکی کے سیکولر آئین کے خلاف کوششوں کے الزامات میں عدالتی کارروائی کا سامنا بھی رہا، لیکن وہ کسی پابندی سے محفوظ رہی۔
ترکی میں 1980ء اور 1996ء کے درمیان فوج تین حکومتوں کو اقتدار سے بے دخل کر چکی ہے جبکہ 1997ء میں ملک میں اسلام پسندوں کی پہلی حکومت کو بھی مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبررساں ادارے
ادارت: مقبول ملک