انٹرنيٹ پر فعال ایرانی کارکن سختيوں کی زد میں
2 مارچ 2012ملکی اپوزیشن نے آج دو مارچ کے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے جبکہ تہران حکو مت کی طرف سے اسی سلسلے میں انٹرنیٹ کے عام صارفین پر دباؤ بھی بڑھا دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جارہ کردہ ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں اپوزیشن کی طرف سے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد پارلیمانی الیکشن کی انٹرنیٹ پر ممکنہ مخالفت اور تنقید کو روکنے کی خاطر تہران کے یہ سخت اقدامات واقعی غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔
ايران ميں انٹرنیٹ مصروفیات پر نظر رکھنے والی ایک نئی پولیس فورس، جسے سائبر پولیس کہا جاتا ہے، گزشتہ ماہ سے ملک کے مختلف حصوں میں اپنے انٹرنيٹ کیفے چلانے والے افراد پر اس مقصد کے لیے شدید دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اپنے آن لائن مراکز کی مسلسل نگرانی کے لیے وہاں ویڈیو کیمرے نصب کریں اور گاہکوں کا شناختی ریکارڈ بھی رکھا جائے۔
اسی سلسلے ميں ايرانی وزير داخلہ محمد مصطفیٰ نجار نے تو ابھی حال ہی میں خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ پارلیمانی الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل سے متعلق ایسی تمام سرگرمیاں، جن کے لیے مختلف آن لائن پلیٹ فارم اور سوشل نيٹ ورکنگ ويب سائٹس استعمال کی جائیں گی، قابل سزا مصروفیات ہوں گی۔
وزير داخلہ نجار نے کہا تھا، ’حکومت اس قسم کی تمام کوششوں کا بھرپور جواب دے گی اور کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دے گی کہ وہ انٹرنيٹ کو ملک میں انتخابی عمل کو منفی طور متاثر کرنے کے لیے استعمال کر سکے‘۔
ایرانی دارالحکومت تہران میں انٹرنیٹ کو بڑی سرگرمی سے استعمال کرنے والے ایک سیاسی کارکن احسان نوروزی کہتے ہیں، ’حکومت انٹرنیٹ کو سیاسی منحرفین اور اپوزیشن کارکنوں سے پاک کر دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ عوام انٹرنیٹ کو سیاسی مزاحمت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں‘۔
ايران ميں تقريباﹰ 30 ملين افراد انٹرنيٹ استعمال کرتے ہيں اور ان کی بہت بڑی اکثريت 25 سے 35 سال کے درميان کی عمر کے مردوں اور خواتین پر مشتمل ہے۔ ایران کے ایسے جوان شہریوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ اب تک کسی نہ کسی طور ایسی ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر ہی لیتے تھے، جن پر حکومت نے پابندیاں لگا رکھی ہیں تاہم ان تازہ ترین حکومتی اقدامات کے باعث اب انہيں بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امیر شفيع زادے ایک ایسے ایرانی شہری ہیں جو یوں تو ایک طالب علم ہیں مگر وہ ايک ايسی ويب سائٹ کے منتظم بھی ہیں جس کے ارکان کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے۔ اس ويب سائٹ پر قارئین کو ایران، اس کی سیاست اور معاشرے سے متعلق طنزیہ انداز میں لکھا گیا کئی طرح کا مواد پڑھنے کو ملتا ہے۔
امیر شفيع زادے کے بقول جب سے حکمرانوں نے مزید سختی کی ہے، تب سے عام ایرانی صارفین بھی کافی محتاط ہو گئے ہيں۔ انہوں نے مزيد بتايا، ’پہلے ہميں يوميہ قریب ايک لاکھ clicks ملتے تھے لیکن اب روزانہ وزیٹرز کی تعداد بہت کم ہو کر محض 30 ہزار کے قریب تک پہنچ چکی ہے۔ شفيع زادے کے مطابق اگر حکومتی دباؤ اسی طرح جاری رہا تو اس کے خلاف اپوزيشن اور ملکی آبادی کے قدرے آزاد خيال طبقے کی جدوجہد بھی جاری رہے گی۔
اسلامی جمہوریہ ایران ميں سن 2009 کے متنازعہ صدارتی انتخابات اور پھر کئی عرب ملکوں ميں اٹھنے والی جمہوريت پسند لیکن حکومت مخالف تحريکوں کے تناظر میں تہران حکومت جان چکی ہے کہ انٹرنیٹ اور آن لائن سوشل میڈیا کتنے طاقتور ہیں۔ حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ اپنے قابو میں رکھنے کی موجودہ کوشش سے پہلے تین سال قبل کے صدارتی الیکشن کے فوراﹰ بعد بھی ایرانی حکمرانوں نے انٹرنیٹ کے آزادانہ اور صارفین کی مرضی کے مطابق استعمال کو محدود کرنے کی کاوشیں کی تو تھیں مگر وہ ان میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
ایسے میں جب حکمران آن لائن پابندیوں کے ذریعے آزادی رائے اور آزادی اظہار کو پوری طرح روکنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر ان کے پاس زیادہ تر ایک ہی راستہ بچتا ہے، وہ ہے انٹرنیٹ کو کم رفتار بناتے ہوئے ڈیٹا ٹرانسفر کو تقریباﹰ مفلوج کر دینا۔ ایرانی حکمران ان مقاصد کے حصول کے لیے اس راستے پر بھی چل رہے ہیں اور ساتھ ہی مخصوص سافٹ ویئر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں تاکہ صارفین دل برداشتہ ہو جائیں اور انٹرنیٹ تہران کے لیے ویسے سیاسی نتائج کی وجہ نہ بنے جیسے کہ اس کی رائے میں سامنے آ سکتے ہیں۔
رپورٹ: عاصم سليم
ادارت: مقبول ملک