انٹرنیٹ: سب کے لیے یکساں مواقع کا مطالبہ
24 جون 2013آج کل انٹرنیٹ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں خاص طور پر نئی ویڈیو ویب سائٹس کی وجہ سے ڈیٹا کی مقدار تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2017ء تک انٹرنیٹ پر ویڈیو ڈیٹا کی مقدار اب تک کے مقابلے میں بڑھ کر دو گنا ہو چکی ہو گی۔ ایسے میں بہت سے نیٹ پرووائیڈرز اپنی ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی استعداد میں مسلسل توسیع کرنے پر مجبور ہیں، جس پر ظاہر ہے، پیسہ خرچ ہوتا ہے۔
خود ان انٹرنیٹ پرووائیڈرز کو نیٹ پر ویڈیو ڈیٹا کی موجودگی سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اربوں کے حساب سے ہونے والی آمدنی کو فیس بُک اور گوگل جیسے ادارے آپس میں ہی بانٹ لیتے ہیں۔ ایسے میں انٹرنیٹ پرووائیڈرز تمام صارفین کو یکساں مواقع دینے کی سہولت ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
پیسے تک رسائی کے لیے انٹرنیٹ پرووائیڈرز کا منصوبہ
انٹرنیٹ میں عام اصول یہ ہے کہ ہر طرح کے ڈیٹا کو، خواہ وہ کسی بھی قسم کا ہے، غیر جانبداری کے ساتھ نیٹ پر فراہم کر دیا جائے۔ کسی کو بھی یہ اجازت نہ ہو کہ وہ ڈیٹا میں تاک جھانک کرے اور کسی مخصوص ڈیٹا کو دوسرے ڈیٹا پر فوقیت دے۔ انٹرنیٹ پرووائیڈرز اب دو مراحل میں اس صورتحال کو بدلنا چاہتے ہیں تاکہ آمدنی کے نئے ذرائع تک اُن کی رسائی ممکن ہو سکے۔ پہلے مرحلے میں انٹرنیٹ تک صارف کی رسائی کو محدود بنایا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں زیادہ بڑا ڈیٹا فراہم کرنے والے فیس بُک اور گوگل جیسے اداروں کو یہ پیشکش کی جائے گی کہ وہ پیسہ خرچ کر کے صارف پر عائد یہ پابندی ختم کر وا سکتے ہیں۔
اپریل میں جرمنی میں ادارے ٹیلی کام نے یہ اعلان کیا کہ آئندہ کوئی صارف مہینے میں طے کردہ ڈیٹا کی ایک مقررہ حد سے آگے بڑھے گا تو اُس کے انٹرنیٹ کنکشن کی رفتار کم کر دی جائے گی۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی انٹرنیٹ میں زیادہ دیر تک رہنا چاہتا ہے تو اُسے پیسہ بھی زیادہ دینا ہو گا۔ تاہم ٹیلی کام کی اپنی سروسز اس سے مستثنیٰ ہوں گی، جو کہ ظاہر ہے، نیٹ میں غیر جانبداری کے اصول کی خلاف ورزی ہو گی۔ ٹیلی کام کے ان منصوبوں پر انٹرنیٹ صارفین کی طرف سے زبردست احتجاج کیا گیا۔ اس احتجاج کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابھی تک جرمنی میں تمام نیٹ صارفین کو یکساں مواقع کی ضمانت دینے سے متعلق کوئی ایسا قانون نہیں ہے، جو کہ ٹیلی کام کو اُس کے ارادوں سے باز رکھ سکے۔
گوگل کو پیسہ ادا کرنا ہو گا
دنیا کے زیادہ تر ممالک میں نیٹ کی غیر جانبداری کے حوالے سے قانونی پوزیشن وہی ہے، جیسی کہ جرمنی میں ہے۔ دنیا بھر میں صرف ہالینڈ، سلووینیا اور چلی ہی ایسے ممالک ہیں، جہاں نیٹ کی غیر جانبداری کی باقاعدہ قانونی طور پر ضمانت دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ کے مادرِ وطن یعنی امریکا میں بھی اس موضوع پر بھرپور بحث جاری ہے۔ حال ہی میں ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے خبر دی تھی کہ گوگل، مائیکروسوفٹ اور فیس بُک نے امریکی انٹرنیٹ پرووائیڈرز کے ساتھ خفیہ سمجھوتے کر رکھے ہیں۔ ان سمجھوتوں کے تحت یہ ادارے ان کمپنیوں کو پیسہ ادا کرتے ہیں تاکہ اُن کے ڈیٹا کو ترجیحی بنیادوں پر صارفین تک پہنچایا جائے۔ انٹرنیٹ پر پھیلی افراہوں کے مطابق جرمن ٹیلی کام بھی گوگل کے ساتھ ایسے ہی ایک سمجھوتے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
جرمن پارلیمان کے نام کامیاب درخواست
جرمن شہر ٹیوبنگن کے 19 سالہ طالبعلم یوہانیس شیلر کی کامیابی یہ ہے کہ ٹیلی کام کے یہ منصوبے چوبیس جون کو ایک پارلیمانی کمیٹی میں زیر بحث آ رہے ہیں۔ اُس نے جرمن پارلیمان کی ویب سائٹ پر ایک آن لائن درخواست دائر کی تھی، جسے صرف چار روز کے اندر پچاس ہزار سے زائد شہریوں کی حمایت حاصل ہو گئی۔ یوں حمایت یافتگان کی تعداد کی وہ شرط پوری ہو گئی، جو کسی درخواست کی جرمن پارلیمان میں سماعت کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ شیلر کمیٹی کے 26 ارکان کے سامنے پیش ہو کر اپنی درخواست کی وضاحت کر رہا ہے۔
اس طرح اب یہ موضوع باقاعدہ طور پر وفاقی جرمن پارلیمان کے ایجنڈے پر آ چکا ہے۔ اب جہاں ایک طرف جرمن ٹیلی کام پر دباؤ بڑھ گیا ہے، وہیں جرمن حکومت پر بھی نیٹ کی غیر جانبداری کی ضمانت دینے کے سلسلے میں قانون سازی کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں ضروری قانون سازی بائیس ستمبر تک یعنی موجودہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے متوقع ہے۔ وزیر اقتصادیات فلیپ روئسلر اس امر کو یقنی بنانا چاہتے ہیں کہ انٹرنیٹ پرووائیڈرز ہر طرح کے مواد کو یکساں رفتار کے ساتھ صارفین تک پہنچائیں اور ڈیٹا کی ترسیل کے دوران معاوضے کے بدلے کسی ایک فرد یا کمپنی کے ڈیٹا کو دوسری کمپنیوں یا افراد کے ڈیٹا پر ترجیح نہ دیں۔
K.Scholz/aa/zb