انڈونیشیا سے مذہبی رواداری یقینی بنانے کا امریکی مطالبہ
8 فروری 2011حکومت کے مشاورتی ادارے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی طرف سے یہ مطالبہ ایک ہجوم کی طرف سے تین احمدیوں پر حملے اور انہیں قتل کرنے کے ایک واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد کیا گیا ہے۔ منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو میں اتوار کے روز قریب ایک ہزار افراد کو جاوا کے مغربی حصے میں احمدیوں کو عبادت سے روکنے کے لیے ایک گھر پر ہلہ بولتے دکھایا گیا ہے۔ ہجوم کو پولیس کی موجودگی میں پتھروں، لاٹھیوں اور چاقوؤں کے وار کرکے ان تین افراد کو قتل کرتے دکھایا گیا ہے۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے امریکی کمیشن نے انڈونیشیا سے اپنا یہ مطالبہ بھی دہرایا ہے کہ وہ مذہبی بے حرمتی سے متعلق اپنے 1965ء کے قانون میں بھی بہتری لائے، جو ان چھ مذاہب کو اختیار کرنے سے روکتا ہے، جن پر ملک میں پابندی عائد ہے۔ اس کمیشن کے چیئرمین لیونارڈو لیو کے مطابق، "یہ ایک اور ہلاکت خیز ثبوت ہے کہ مذہبی بے حرمتی سے متعلق قوانین مذہبی تشدد پر قابو پانے کی بجائے ان کو بڑھانے کی وجہ بن رہے ہیں"۔ لیونارڈو کا مزید کہنا تھا، "انڈونیشیا برداشت اور رواداری رکھنے والا ملک ہے لہٰذا اسے شدت پسند گروپوں کو کوئی رعایت نہیں دینی چاہیے۔ انڈونیشیا کی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کو تشدد اور نفرت پھیلانے پر انصاف کے کٹہرے میں لائے"۔
انڈونیشیا میں مذہبی منافرت پر مشتمل یہ واقعہ امریکی صدر باراک اوباما کے دورہ انڈونیشیا کے محض تین ماہ بعد ہی پیش آیا ہے۔ امریکی صدر نے اپنے دورے کے دوران آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا کو مذہبی رواداری رکھنے والا اور دنیا کے لیے ایک مثالی ملک قرار دیا تھا۔
انڈونیشیا کے آئین میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے تاہم اسلامی قدامت پسندوں کے اصرار پر سال 2008ء میں احمدیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ سے روک دیا گیا تھا۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: امجدعلی