انڈونیشیا میں احمدیوں کی مسجدوں پر تالے
19 جون 2008مقامی باشندوں کے مطابق دو گروپوں‘ اہل سنت والجماعت اور یونائٹیڈ اسلامک سٹوڈنٹس نے بدھ کے روز جکارتا سے تقریباً ایک سو کلومیٹر دور کمپاکا کے علاقے میں واقع مسجد کو تالے لگا دئے ہیں اورسپرے پینٹ کی مدد سے دیواروں پر کچھ یوں لکھ دیا ہے: 'اس مسجد کو استعمال نہیں کیا جا سکتا'
کمپاکا کے پولیس سربراہ احمد یانی نے کہا ہے کہ پولیس نے ان گُروپوں کو مسجد بند کرنے سےنہیں روکا تاہم پولیس چاہتی ہے کہ سب کو تحفط فراہم ہو اور کوئی خون خرابہ نہ ہو۔ 'پولیس اس معا ملے میں مکمل طور پرغیرجانبدار رہنا چاہتی ہے۔'
پولیس سربراہ احمد یانی کے مطابق اس واقعہ میں کوئی بھی شخص زخمی نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں:'احمدی فرقے کے لوگ اپنے گھروں میں نماز ادا کر سکتے ھیں۔'
دوسری جانب انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے انڈونیشیا کی پولیس کو مذہبی تنازِعات میں اپنا کردارادا نہ کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پولیس کے مطابق Cibeber کے علاقے میں بھی مقامی لوگوں نے احمدی فرقے کے سکولوں اورمسجدوں کو بند کر دیا ہے۔ اس سے قبل احمدیوں نے اپنی مساجد اور سکول بند کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
احمد یوں کی ایک بڑی تعداد کمپاکا میں آباد ہے جبکہ سن دو ہزار پانچ میں نواحی علاقوں کے تقریبا دو ہزار افراد پر مشتمل ہجوم نے حملہ کرکے ان کی مساجد‘ گھر اور دکانیں منہدم کر دی تھیں۔
جب سے انڈونیشیاکی حکومت نے احمدیوں کی طرف سے اپنے فرقے کی نشرو اشاعت کے عمل اور تبلیغ پر پابندی عائد کی ہے تب سے ان کے خلاف پرتشّدد کاروائیوں کے خدشے میں مذید اضافہ ہوگیا ہے۔
انڈونیشیا کے نائب صدر یوسف کالا کے مطابق حکومت احمدی فرقے پر پابندی عائد کرنا نہیں چاہتی بلکہ ان کو گھروں اور مسجدوں میں عبادت کرنے کی اجازت ہے تاہم اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے عقیدے کی طرف مائل کریں۔
انڈونیشیا میں سرگرم عمل سخت گیر موقف کے حامل مذہبی رہنما ابوبکر بشیر نے خبردار کیا ہے کہ اگراحمدی فرقے کو مکمل طور پر بین نہ کیا گیا تومختلف قومی گروپوں کے درمیان پیچیدہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
عام مسلمان پیغمبر اسلام حضرت محمد کو آخری رسول مانتے ہیں جبکہ احمدی فرقے سے وابستہ افراد اس بات سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی بھی ایک پیغمبر اور مسیحا ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس فرقے کی بنیاد انیسویں صدی میں بھارت میں رکھی۔