انڈونیشیا میں دوہری آفت، 100 سے زائد افراد ہلاک
27 اکتوبر 2010سونامی کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 113 بتائی جا رہی ہے جبکہ آتش فشاں پھٹنے سے 18افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام کے مطابق ان قدرتی آفات کے نتیجے میں کم ازکم پانچ سو افراد لاپتہ بھی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ پیر کو رات گئے سماٹرا کے جنوب میں مینتاوائی جزائر پر شدید زلزلہ آیا تھا، جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.7 ریکارڈ کی گئی۔ اس کے نتیجے میں تین میٹر تک بلند لہریں پیدا ہوئیں اور دس دیہات بہہ گئے۔
مینتاوائی جزائر میں ایک رکن پارلیمنٹ ہیندری دوری ساتوکو کا کہنا ہے، ’کرائسس سینٹر کو دستیاب اعدداوشمار کے مطابق سونامی لہروں کے باعث 108 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 502 لاپتہ ہیں۔
متاثرہ علاقے میں وسیع پیمانے پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ دوسری جانب امدادی ٹیمیں سونامی لہروں کا نشانہ بننے والی غیرملکی سیاحوں کی ایک کشتی کو تلاش کر رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کشتی پر آسٹریلیا اور جاپان کے نو سیاح سوار تھے، جو زلزلہ آنے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔
آسٹریلوی سیاحوں کی ایک اور کشتی بھی سونامی لہروں کا نشانہ بنی، جس پر 15افراد سوار تھے۔ اے ایف پی کے مطابق ان سیاحوں کا کہنا ہے کہ بلند لہروں نے ان کی کشتی کو ساحل پر پھینک دیا، جس کے بعد انہوں نے قریبی درختوں پر چڑھ کر جان بچائی۔
جاوا کے ایک علاقے میں ایک دوسری قدرتی آفت نے قیامت ڈھائی ، وہاں منگل کو آتش فشاں ماؤنٹ میراپی تین مرتبہ پھٹا ہے۔ اسے انڈونیشیا کا سب سے زوراثر آتش فشاں قرار دیا جاتا ہے۔ وہاں 18افراد ہلاک ہوئے جبکہ بیشتر علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
حکومتی ماہر برکانیات سورونو نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے تین دھماکے سُنے گئے۔ آتش فشاں کا مادہ ڈیڑھ کلومیٹر تک پھیل گیا۔‘
خیال رہے کہ انڈونیشیا بحرالکاہل کے ’رِنگ آف فائر‘ یعنی آگ کے گولے پر واقع ہے، جہاں زمینی پرتیں آتش فشانوں اور زلزلوں کا باعث بنتی ہیں۔
گزشتہ برس وہاں پدانگ کے علاقے میں 7.6 شدت کا زلزلہ آیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ 11سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انڈونیشیا 2004ء میں ایشیا کے مختلف ممالک میں آنے والے سونامی کا بھی نشانہ تھا اور اس وقت سب سے زیادہ تباہی انڈونیشیا میں ہی ہوئی تھی، جہاں کم از کم ایک لاکھ 68 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ سونامی سماٹرا کے سمندری علاقے میں 9.3 شدت زلزلے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ