بھارت میں مسلمانوں کی سکیورٹی یقینی بنائی جائے، او آئی سی
15 فروری 2022دنیا کے ستاون مسلم ملکوں کے گروپ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے پیر کے روز جدہ میں اپنے ہیڈکوارٹر سے جاری ایک بیان میں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے حالیہ واقعات پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے تمام ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے ہندو شدت پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے حالیہ بیانات، سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنے اور حجاب کے حالیہ تنازع پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
او آئی سی کی جنرل سکریٹریٹ نے ایک سے زائد ٹوئٹ کرکے بھارت کی ریاست اتراکھنڈ میں دسمبر میں منعقدہ 'ہندو دھرم سنسد' میں مسلمانوں کی نسل کشی کے سرعام اعلانات، سوشل میڈیا پر مسلمان خواتین کو ہراساں کرنے کے متعدد واقعات اور جنوبی ریاست کرناٹک میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کئے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
او آئی سی نے بین الاقوامی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے اس حوالے سے ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے، "او آئی سی کا جنرل سیکریٹریٹ ایک بار پھر بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مسلمان برادری کے تحفظ اور سکیورٹی کو یقینی بنائے اور تشدد، نفرت انگیز جرائم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔''
او آئی سی کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب حجاب پر پابندی کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور اس معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ میں سماعت ہورہی ہے۔
بھارت کا فی الحال کوئی ردعمل نہیں
او آئی سی نے ماضی میں بھی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مبینہ مظالم کے خلاف نئی دہلی سے احتجاج اور قصوروار وں کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبات کیے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سمیت متعددصحافیوں نے اوآئی سی کے تازہ بیان پر بھارتی وزارت خارجہ سے ردعمل کی درخواست پر ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
بھارت کا تاہم بالخصوص دوسرے ملکوں اور غیرملکی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اس طرح کے بیانات پر مستقل موقف یہ ہے کہ 'ایسے بیانات بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہیں اور کسی بھی ملک کو بھارت کے داخلی معامات میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔'
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی سفیر نے چند روز قبل حجاب پر پابندی کے حوالے سے کرناٹک حکومت کے رویے کی نکتہ چینی کی تھی۔
اس کے علاوہ حکومت پاکستان کے کئی وزراء اور وہاں کی تنظیموں نے بھی حجاب پر پابندی کی مذمت کی تھی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے ان بیانات پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے داخلی معاملات پر اس طرح کے 'ہمدردانہ 'بیانات کا خیر مقدم نہیں کیا جائے گا۔
اریندرم باگچی کا کہنا تھا، "جو لوگ بھارت کو اچھی طرح جانتے ہیں انہیں ان حقائق کا درست ادراک کرنا ہوگا، ہمارے داخلی مسائل پر ہمدردانہ بیانات کا خیرمقدم نہیں کیا جاتا۔ ہمارے آئین کا فریم ورک اور میکنیزم اور ہماری جمہوری روایات میں ان مسائل کو دیکھا اور حل کیا جاتا ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کرناٹک میں چند تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ کا معاملہ ہائی کورٹ کرناٹک میں زیر سماعت ہے۔
'لوگ مسلم بہنوں کو ورغلا رہے ہیں'،مودی
خیال رہے کہ امریکا کے سفیر برائے مذہبی آزادی راشد حسین نے اپنے بیان میں حجاب پر پابندی کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی ریاست کو مذہبی لباس کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں لگانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہبی آزادی میں کسی کو بھی مذہبی لباس پہننے کی اجازت شامل ہوتی ہے، اسکولوں میں حجاب پر پابندی سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اس سے خواتین اور لڑکیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے ایک انتخابی جلسے خطاب کے دوران حجاب کا لفظ استعمال کیے بغیر کہا، " بھارت میں لوگ مسلمان خواتین کے حقوق اور ترقی کو روکنے کے لیے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ " وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا،" وہ لوگ مسلم بہنوں کو ورغلا رہے ہیں تاکہ مسلم بیٹیوں کی زندگی ہمیشہ پیچھے ہی رہے لیکن ہماری حکومت ہر مظلوم مسلم خاتون کے ساتھ کھڑی ہے۔"