اوباما، نوازشریف سے جوہری تحفظات پر بات کریں گے
16 اکتوبر 2015امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے جمعرات 15 اکتوبر کو اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اوباما انتظامیہ کو ان اطلاعات پر تحفظات ہیں کہ پاکستان چھوٹے جوہری ہتھیار تعینات کر سکتا ہے اور ایسی صورت میں ان ہتھیاروں کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں جانے کے خطرات بڑھ جائیں گے۔
اخبار کے مطابق امریکی انتظامیہ اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ کس طرح پاکستان کو ایسے میزائل تعینات کرنے سے روکا جائے جو اس کے روایتی حریف بھارت سے بھی دور تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس مقصد کے لیے ایک ممکنہ معاہدے پر غور کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی اسلحے کو ایک حد میں رکھا جا سکے اور اس معاہدے میں ممکنہ طور پر سول جوہری ٹیکنالوجی تک پاکستان کو رسائی بھی دی جا سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جب وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ سے پاکستانی وزیراعظم کے دورہ واشنگٹن کے دوران کسی سول جوہری معاہدے کے طے پانے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے ایسے کسی معاہدے کے طے پانے کا امکان کم ظاہر کیا۔ اپنی ریگولر نیوز بریفنگ کے دوران جوش ایرنسٹ کا کہنا تھا، ’’جس طرح کے معاہدے کے بارے میں عوامی طور پر چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں، میں ایسے کسی معاہدے کے طے پانے کے حوالے سے بہت زیادہ پرجوش نہیں ہوں۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا، ’’لیکن امریکا اور پاکستان جوہری تحفظ کی اہمیت کے معاملے پر مسلسل بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ اور میں توقع کروں گا کہ یہ ڈائیلاگ دو ممالک کے رہنماؤں کے درمیان بات چیت کا حصہ بنے۔‘‘
ایرنسٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ کو اس بات پر پورا یقین ہے کہ پاکستانی حکومت ’جوہری ہتھیاروں کو لاحق ممکنہ خطرات سے پوری طرح آگاہ‘ ہے اور یہ کہ ’پاکستان کے پاس ان ہتھیاروں کے تحفظ کے لیے خصوصی پیشہ ور فورس موجود ہے جو دنیا کی طرف سے جوہری تحفظ کو دی جانے والی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہے۔‘‘
نیویارک ٹائمز کے مطابق سابق امریکی صدر جارج بش کے دور حکومت میں امریکا نے 100 ملین ڈالرز تک اس پروگرام پر خرچ کیے جس کا مقصد پاکستان کے جوہری اثاثوں کو محفوظ رکھنے میں پاکستان کی مدد کرنا تھا۔ یہ کوشش اوباما دور حکومت میں بھی جاری رہی ہے۔
اخبار کے مطابق امریکی حکام کو خاص طور پر چھوٹے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں سے متعلق تحفظات ہیں جو پاکستان نے کسی ممکنہ بھارتی جارحیت کے جواب کے لیے تیار کیے ہیں کیونکہ غلط ہاتھوں میں جانے کی صورت میں ان ہتھیاروں کو چوری کرنا اور انہیں استعمال کرنا نسبتاﹰ آسان ہو گا۔ تاہم پاکستان کی جانب سے اس بات کی تردید کی جاتی ہے کہ پاکستانی جوہری ہتھیاروں کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں جانے کے کوئی امکانات موجود ہیں۔