اوباما کا دورہء بھارت: امیدیں اور امکانات
4 نومبر 2010بھارتی خارجہ سیکریٹری نروپما راؤ نے امریکی صدر کے دورہء بھارت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ باراک اوباما اور خاتون اول میشل اوباما کے علاوہ ان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی آ رہا ہے، جس میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر ٹام ڈونی لون، وزیر خزانہ ٹموتھی گائٹنر، وزیر تجارت گیری لاک، وزیر زراعت ٹامس ولساک اور USAID کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر راجیو شاہ بھی شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ تجارت اور میڈیا سے وابستہ ایک بڑا وفد بھی ان کے ساتھ آرہا ہے۔
امریکی صدر 7 نومبر کو ممبئی میں 26 نومبر 2008 کو ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں مارے گئے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد شہر میں واقع منی بھون جائیں گے۔ اس عمارت میں مہاتما گاندھی نے اپنا کافی وقت گزارا تھا۔ صدر اوباما مہاتما گاندھی کی سوچ سے بہت متاثر ہیں۔ امریکی صدر بعد میں بھارتی امریکی بزنس کونسل کے اجلاس سے خطاب بھی کریں گے۔
یہاں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کے دورے سے قبل صدر اوباما کی تقریر سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ ان سے زیادہ امیدیں رکھنا غلط ہو گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لئے حمایت کی آس لگائے بھارت کو اوباما نے یہ کہہ کر زبردست جھٹکا دیا ہے کہ بھارت کی دعویداری مشکل ترین اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ آؤٹ سورسنگ کے معاملے اور ٹیکنالوجی کے دوہرے استعمال پر بھی اوباما نے کسی مثبت رویے کااظہار نہیں کیا۔
نروپما راؤ نے بتایا کہ امریکی صدر 7 نومبر کو ہی دہلی میں مغل شہنشاہ ہمایوں کا مقبرہ دیکھنے جائیں گے اور وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ ان کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے۔ جبکہ امریکی صدر کو 8 نومبر کو راشٹرپتی بھون میں رسمی خیرمقدم کیا جائے گا۔اس کے بعد وہ وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ کے ساتھ علاقائی، عالمی ، باہمی دلچسپی اور اسٹریٹجک تعلقات کو توسیع دینے کے امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
انہوں نے بتایاکہ مسٹر اوباما نائب صدر محمد حامد انصاری، حکمراں کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کریں گے اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔9 نومبر کو انڈونیشیا روانہ ہونے سے قبل صدر پرتبھا دیوی سنگھ پاٹل امریکی صدر اور خاتون اول کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گی۔
خیال رہے کہ 2006 میں جارج ڈبلیو بش کے بعد کسی امریکی صدر کا بھارت کا یہ پہلا دورہ ہے تاہم مسٹراوباما پچھلے دس برسوں میں بھارت کا دورہ کرنے والے تیسرے صدر ہیں جب کہ آزادی کے بعد کے ابتدائی 30 برسوں میں صرف تین امریکی صدور بھارت آئے تھے۔ یہاں امریکی حکومت کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ جارج ڈبلیو بش کا دورہ بھارت امریکہ نیوکلیائی معاہدے پر مرکوز تھا جب کہ صدراوباما کا دورہء دونوں ملکوں کے مجموعی تعلقات کو مستحکم کرنے اور نئی جہت دینے پر مرکوز ہوگا۔ اس لئے اس دورے کو کسی مخصوص یا ایک تناظر میں دیکھنا مناسب نہیں ہوگا۔
بھارتی خارجہ سکریٹری نروپما راو نے کہا کہ بھار ت اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی اور تجارت اور سرمایہ کاری میں تعاون کے فریم ورک جیسے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جب کہ سائنس اور ٹیکنالوجی، صاف توانائی، صحت، اعلی تعلیم، زراعت جیسے شعبوں میں بھی تعاون میں توسیع کی امید ہے۔
اس حوالے سے ایک نئی پیش رفت کے تحت صحت کے شعبے میں امراض کا پتہ لگانے کے ایک علاقائی مرکز کے قیام کی تجویز زیر غور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مرکز کے قیا م میں بلاشبہ سب سے بڑا تعاون امریکہ کا ہوگا۔
گوکہ حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان سول نیوکلیائی تعاون کا معاہدہ ہوا ہے لیکن نیوکلیائی جوابدہی کے حوالے سے بھارتی پارلیمان کے ذریعہ پچھلے دنوں منظور کردہ بل کے بعد امریکی کی کمپنیاں یہاں آنے سے گھبرا رہی ہیں۔ نروپما راو نے کہا کہ ہم نے امریکی کمپینوں کو مدعو کیا ہے تاکہ ان کے سامنےCivil liabilities law کی تشریح کرسکیں اور انہیں اگر کسی طرح کی تشویش ہوتو اسے دور کرسکیں،جس سے اس معاہدے کے نفاذ کے اگلے قدم کے طور پر یہاں سول نیوکلیائی پاور پروجیکٹوں کے قیام کا راستہ کھل سکے۔
دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی خارجہ سکریٹری نے کہا کہ ہمیں جن خطرات کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سرحد پار سے دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہے، اسی طرح افغانستان میں بھی بھارتی مفادات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس لئے ہم امریکی صدر کی آمد پر ان سے دہشتگردی کے ان تمام عناصر کے حوالے سے بات کریں گے جو علاقائی یا عالمی سطح پر سرگرم ہیں۔
اس دوران بھارت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں نے صدر اوباما کو ایک خط لکھ کر آوٹ سورسنگ اور بھارتی آئی ٹی کارکنوں کو امریکہ میں ہراساں کئے جانے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بزنس کمپنیوں نے صدر اوباماسے ملاقات کے دوران ویزا جیسے امور کو اٹھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: عصمت جبیں