1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کی جیت پاکستانی ذرائع ابلاغ کی نظر میں

8 نومبر 2012

امریکی صدارتی انتخابات میں باراک اوباما کی جیت کے حوالے سے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھی تبصروں اور جائزوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے تقریبا تمام بڑے ٹی وی چینلوں نے باراک اوباما کی جیت کو مین سٹوری کے طور پر پیش کیا۔

https://p.dw.com/p/16fTJ
تصویر: AFP/Getty Images

ان چینلوں کے ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر بھی پچھلے چوبیس گھنٹوں سے اس حوالے سے تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے ایک سینئر صحافی اور روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر عبداللہ طارق سہیل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کے جمعرات کے روز شائع ہونے والے تمام پاکستانی اخبارات نے اوباما کی جیت کو ہی اپنی ہیڈ لائن بنایا ہے اور اس سلسلے میں ان کی تقریر کا وہ فقرہ نمایاں طور پر چھاپا ہے، جس میں انہوں نے جنگ کے خاتمے اور امن کی طرف آنے کی بات کی ہے۔

عبداللہ طارق کے بقول، ’’پاکستان کی قوم صدر اوباما کی اس خواہش کو ایسی امید سمجھتی ہے، جو اگر مکمل طور پر پوری نہ بھی ہو سکے توپھر بھی اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ امریکی بڑی حد تک اس خطے سے نکل جائیں گے۔ اس طرح شاید حالات میں کچھ بہتری آسکے۔ افغانستان کے بعد یہ پاکستان ہی ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زیادہ تر تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ رومنی کے مقابلے میں باراک اوباما کی جیت پاکستان کے حق میں زیادہ بہتر ہے، لیکن عام لوگ اس حوالے سے قدرے لاتعلق ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکا میں کوئی بھی برسر اقتدار آ جائے پاکستان کے حوالے سے ان کی پالیسیاں نہیں بدلیں گی۔

Indien Pakistan Benazir Bhutto ermordet Reaktionen Zeitung
تصویر: AP

اردو اخبار روزنامہ جنگ نے سمندری طوفان کے باوجود امریکی انتخابات کے انعقاد،انتخابی عمل کے پرسکون طریقے سے مکمل ہونے اور مٹ رومنی کی طرف سے اپنی شکست تسلیم کرنے کو قابل رشک قرار دیا ہے۔ اسی اخبار میں شائع ہونے والے حامد میر کے کالم میں کہا گیا ہے کہ باراک اوباما کی جیت کی خبر ایک ایسے موقع پر موصول ہوئی، جب پاکستانیوں کے دل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپیل کے مسترد ہونے پر دکھی تھے۔

انگریزی روزنامہ ڈیلی نیشن نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکا کی نئی ڈیموکریٹک حکومت پاکستان میں جمہوری عمل کی حمایت کرے گی تا ہم اخبار کے بقول اوباما انتظامیہ کا بھارت کی طرف داری کا رجحان، جاری رہنے کا امکان ہے۔

روز نامہ نوائے وقت کی رائے میں اوباما کی پالیسیاں امریکی مفادات کے تابع رہیں گی اور اس انتخابی نتائج پر کسی پاکستانی کو خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اخبار نے حکومت پاکستان کو ملکی مفادات سامنے رکھ کے پاک امریکا تعلقات سے متعلق نئی پالیسی بنانے کا مشورہ دیا ہے۔

انگریزی اخبار ڈان نے اوباما اور پاکستان کے موضوع پر لکھے گئے اپنے اداریے میں کہا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ اوباما کی نئی ٹیم اپنی خارجہ پالیسی کے متنازعہ پہلوؤں پر نظرثانی کرتی ہے یا نہیں۔ اخبار کے مطابق تاریخ میں پہلی پر نچلی ترین سطح پر پہنچے ہوئے پاک امریکا تعلقات کو بہتر بنانا، پاکستان اور امریکا کی حکومتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

مسلم ممالک سے امریکا کے تعلقات کے حوالے سے اخبار ڈان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں باراک اوباما کو اپنی قاہرہ میں کی جانے والی تقریر دوبارہ پڑھنی چاہیے۔ ڈیلی ٹائمز کے مطابق ہمارے خطے کے حوالے سے امریکی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔

اردو اخبار روزنامہ ایکسپریس نے اپنے اداریے ’’صدر اوباما کی جیت،ٹارزن کی واپسی‘‘ میں امریکی سیاست دانوں کی تعریف کرتے ہوئے پاکستانی سیاست دانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی ملکی انتخابات میں اپنے منشور پر ووٹ مانگنے کی روایت کو فروغ دیں۔ ڈیلی نیوزکے مطابق امریکی انتخابات پر تقریباﹰ چھ ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے اور ہر امریکی کو یہ انتخاب بیس ڈالر میں پڑا ہے۔

ادھر ٹوئٹر اور فیس بک پر بھی باراک اوباما کی جیت پرخوشی اور تنقید پر مبنی ملے جلے جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ باراک اوباما کی تصاویر بھی اپ لوڈ کی جارہی ہیں۔ یہاں باراک اوباما کی جیت کے جشن کا تذکرہ بھی مل رہا ہے اور ڈرون حملوں میں مارے جانے والے عام شہریوں کا دکھ بھی انتخابی تبصروں میں دکھائی دے رہا ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور

ادارت: امتیاز احمد