1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما یا اولانڈ شامی قیادت نہیں چن سکتے، پوٹن

عاطف توقیر29 ستمبر 2015

روسی صدر ولادیمر پوٹن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شامی تنازعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر اوباما اور فرانسیسی صدر اولانڈ شامی قیادت کے انتخاب کا حق نہیں رکھتے۔

https://p.dw.com/p/1Gf7x
UN Rede Wladimir Putin
تصویر: Reuters/M. Segar

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرائنی تنازعے میں کسی حد تک تنہائی کے شکار پوٹن نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شامی مسئلے اور دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت پر زور دے کر یوکرائن کے معاملے پر اپنی عالمی تنہائی کم کرنے کی کوشش کی۔

صدر پوٹن نے کہا کہ امریکی صدر اوباما اور فرانسیسی صدر اولانڈ شام کے شہری نہیں، اس لیے انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ شام کا رہنما کون ہو گا۔

گزشتہ ایک دہائی میں یہ پہلا موقع تھا کہ روسی صدر پوٹن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اقوام متحدہ کی حمایت سے ایک وسیع تر بین الاقوامی اتحاد کی ضرورت ہے۔ اپنے خطاب کے بعد کل شام میں انہوں نے امریکی صدر باراک اوباما سے بھی 90 منٹ دورانیے کی ملاقات کی۔

Obama Putin: Das Treffen am Rande der UN-Vollversammlung
اوباما اور پوٹن کے درمیان ملاقات ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہیتصویر: picture-alliance/AP Photo

پوٹن نے امریکی صدر کے ساتھ اپنی ملاقات کو ’تعمیری اور حیرت انگیز طور پر کھلے پن کی حامل‘ قرار دیا۔

گزشتہ قریب دو برسوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ روسی اور امریکی صدور نے ایک دوسرے سے بالمشافہ ملاقات کی۔ صدر اوباما نے بھی گزشتہ روز جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ وہ شامی تنازعے کے حل کے لیے روس اور ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔

یہ تازہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب روس نے اپنے سینکڑوں فوجی اور عسکری سازوسامان شام میں تعینات کر دیا ہے اور اس سے مغربی ممالک کو یہ خدشات لاحق ہو گئے ہیں کہ ماسکو حکومت اپنے دیرینہ اتحادی بشارالاسد کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف کارروائی کرنے والی ہے۔

ادھر خطے کے ممالک سعودی عرب اور ترکی کا اصرار ہے کہ شام میں قیام امن کے لیے ہر حالت میں بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنا ہو گا۔ تاہم روسی صدر نے اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ شام میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ’ملک کی جائز حکومت‘ کا ساتھ دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے کہ شامی فورسز کا ساتھ دیا جائے، جو اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں سے میدان جنگ میں مصروف عمل ہیں اور ساتھ ہی شام میں اپوزیشن کے ساتھ تعمیری مکالمت کا آغاز ہو، تاکہ یہ ملک بھی لیبیا یا عراق کی طرح اپنے ادارے نہ کھو دے۔

دریں اثناء وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ حالانکہ دونوں رہنماؤں نے شامی مسئلے کے حل کے لیے سیاسی اصلاحات پر اتفاق کیا ہے، تاہم دونوں صدور شام کے مستقبل میں صدر اسد کے کردار پر اختلافات رکھتے ہیں۔