اوباما۔عباس ملاقات: امریکہ دو ریاستی حل کے حق میں
29 مئی 2009نئی امریکی انتظامیہ اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ کے حل کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کرتی نظر آرہی ہے۔ صدر بننے کے بعد سے باراک اوباما نے جمعرات کے روز پہلی مرتبہ فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کے ساتھ واشنگٹن میں ملاقات کی۔
فلسطینی رہنما اس امید اور توقع کے ساتھ واشنگٹن کے دورے پر آئے تھے کہ امریکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مزید یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے سے متعلق اسرائیل پر مزید دباوٴ ڈالے گا۔ عباس کی امید وں اور توقعات کے عین مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے ایک مرتبہ پھر نہ صرف یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے پر زور دیا بلکہ علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کو بھی مستقل امن کے لئے لازمی قرار دیا۔
اوباما نے قیام امن کے تعلق سے صدر محمود عباس کی کوششوں کی بھرپور ستائش کی۔ امریکی صدر نے کہا کہ انہیں اس بات کا بھرپور اندازہ ہے کہ فلسطین میں متحدہ حکومت قائم کرنے کے حوالے سے محمود عباس کو زبردست مشکلات اور دباوٴ کا سامنا ہے۔
عباس کے ساتھ ملاقات کے بعد اوباما نے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ میں مستقل اور پائیدار امن کے حوالے سے دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت کی۔
گُذشتہ ہفتے اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر زور دیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ تنازعے کے حل کے لئے دو ریاستی حل پر راضی ہوجائیں تاہم نیتن یاہو علیحدہ فلسطینی ریاست کے حق میں نہیں ہیں۔ اوباما نے نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں ان سے واضح طور پر کہا تھا کہ علیحدہ فلسطینی ریاست کا وجود خطّے کے امن کے لئے ضروری ہے۔
’’میں نے پہلے بھی کہا اور میں یہ بات ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ دو ریاستی حل میرے خیال میں نہ صرف فلسطینیوں کے لئے، بلکہ اسرائیل، امریکہ اور بین الاقوامی برادری کے بھی مفاد میں ہے۔ دو ایسی ریاستیں، جن میں فلسطینی اور اسرائیلی امن اور سلامتی کے ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرسکیں۔‘‘
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن دوٹوک الفاظ میں یہ کہہ چکی ہیں کہ امن عمل کی کامیابی کے لئے اسرائیل کو تمام یہودی بستیوں کی توسیع کا کام بند کردینا ہوگا۔
’’صدر اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر حال ہی میں وائٹ ہاوٴس میں ہونے والی ملاقات میں یہ واضح کردیا تھا کہ تمام یہودی بستیوں کی تعمیر بند ہونی چاہیے۔‘‘ کلنٹن نے کہا کہ یہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لئے ضروری ہے۔
’’جب وزیر اعظم نیتن یاہو یہاں آئے تو صدر اوباما نے اُن سے صاف طور پر کہا کہ وہ مزید یہودی بستیوں کی تعمیر نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ایسا کرنا ان تمام کوششوں کے مفاد میں ہے، جو ہم مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لئے کررہے ہیں۔‘‘
اسرائیل نے تاہم مقبوضہ علاقوں میں تمام یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے سے متعلق امریکی مطالبے کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے ترجمان مارک ریگیو نے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں میں ’’معمول کی زندگی‘‘ جاری رہے گی۔ حکومتی ترجمان نے مزید کہا کہ بستیوں کی تعمیر روکنے کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کے بعد ہی لیا جاسکتا ہے۔
فلسطینی انتظامیہ نے یہودی بستیوں کی تعمیر بند ہونے اور سرحدی گذرگاہوں پر عائد تمام پابندیوں کے خاتمے تک اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں حصّہ لینے کے عمل کو فی الحال خارج از امکان قرار دیا ہے۔ امریکہ تاہم یہ چاہے گا کہ فلسطین جلد اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل ہوجائے۔
دریں اثناء محمود عباس کے ترجمان ابو ردینا نے کہا ہے کہ امریکہ اور فلسطین کے مابین دو ریاستی حل سے متعلق کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ ترجمان نے اس امید کا اظہار کیا کہ جلد ہی مشرق وسطیٰ میں قیام امن سے متعلق سفارتی سرگرمیاں تیز ہوجائیں گی۔
فلسطینی رہنما محمود عباس منگل کی شب واشنگٹن پہنچے تھے۔ وائٹ ہاوٴس میں صدر اوباما کے ساتھ ملاقات سے قبل عباس نے عالمی بینک کے صدر رابرٹ زولک کے ساتھ بدھ کے روز ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات سے محض ایک روز قبل ورلڈ بینک نے فلسطینی انتظامیہ کے لئے 55 ملین ڈالرز کی اضافی رقم دینے کا اعلان کیا تھا۔
نومبر 2007ء میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج بش کی سرپرستی میں اناپولس کانفرنس کی وساطت سے اسرائیل اور فلسطین کے رہنماوٴں کے مابین امن عمل کا دوبارہ آغاز ہوا تھا۔ اس کانفرنس کے بعد محمود عباسں اور سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے آپس میں کم از کم بیس ملاقاتیں کیں تاہم دو ریاستی حل کے سلسلے میں بات آگے نہیں بڑھ سکی۔
امن عمل کو سب سے بڑا دھچکہ گذشتہ برس دسمبر میں اس وقت لگا جب اسرائیل نے غزہ پٹی پر حماس کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی اور زمینی حملے کئے۔ ان حملوں میں تقریباً تیرہ سو فلسطینی ہلاک اور پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
غزہ پٹی پر ابھی بھی حماس تحریک کا کنٹرول قائم ہے جبکہ مغربی کنارے میں محمود عباس کی الفتح کا اثر ورسوخ ہے۔