1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'اولاد سے بڑھ کر کچھ نہیں، اس لیے ملک سے نکلنا پڑا‘

شاہ زیب جیلانی
11 اگست 2020

انتخابی دھاندلی کے خلاف مظاہروں کے دوران بیلاروس کی اپوزیشن رہنما حکومت کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کے تحت پڑوسی ملک لیتھوینیا پہنچ گئیں۔

https://p.dw.com/p/3gnan
Belarus Präsidentschaftswahl Oppositionskandidatin Swetlana Tichanowskaja
تصویر: picture alliance/AP Photo

یوٹیوب پر جاری ایک بیان میں سینتیس سالہ سویٹلانا ٹیخانوسکایا نے جذباتی انداز میں کہا ملک چھوڑنے کا فیصلہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن انہیں اپنے بچوں کی خاطر ایسا کرنا پڑا۔ روسی زبان میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اس انتخابی مہم نے مجھے بڑا حوصلہ دیا اور میں سمجھی تھی کہ میں فولاد کی طرح مضبوط ہو چکی ہوں اور ہر طرح کے حالات سے نمٹ سکتی ہوں۔ لیکن شاید میں اب بھی وہی کمزور عورت ہوں جو پہلے تھی۔‘‘

انہوں نے کہا ملک چھوڑنے کے لیے ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا اور یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ بعض لوگ ان کے اس فیصلے کی مذمت کریں گے اور ان سے نفرت کریں گے۔

تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ اس وقت جو حالات ہیں اس میں ہر جان قیمتی ہے: ''ہماری زندگی میں ہمارے بچے ہی سب سے اہم چیز ہیں۔‘‘

سویٹلانا ٹیخانوسکایا نے حفاظت کے پیش نظر بیلاروس میں الیکشن سے پہلے ہی اپنے بچوں کو لیتھوینیا روانہ دیا تھا۔

صدر لوکاشینکو سے ٹکر لینے کا نتیجہ؟

بیلاروس کو یورپ کی آخری آمریت کہا جاتا ہے۔ صدر الیکسانڈر لوکاشینکو سن 1994 سے اس سابق سویت ریاست کے حاکم رہے ہیں۔ ان 26 برسوں میں صدر لوکاشینکو چھ بار انتخابات میں اپنے مخالفین کا تقریباﹰ مکمل صفایا کرتے ہوئے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔

دارالحکومت مِنسک میں حکام کے مطابق اس بار بھی اتوار نو اگست کو ہونے والی ووٹنگ میں انہیں 80 فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کی مدمقابل سویٹلانا ٹیخانوسکایا کے حق میں صرف 9.9 فیصد ووٹ آئے۔ مبصرین کے مطابق ماضی کی طرح اس بار بھی کئی مقامات پر دھاندلی کا سہارا لیا گیا۔

Weißrussland Minsk | Alexander Lukaschenko im Gespräch mit der Presse nach Stimmabgabe
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Pokumeiko

الیکشن مہم کے دوران صدر لوکاشینکو نے اپنی حریف کو ''ایک چھوٹی سی غریب بچی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ ان کے مخالفین کٹھ پتلیوں کی طرح بیرونی عناصر کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

سویٹلانا ٹیخانوسکایا کون ہیں؟

سویٹلانا ٹیخانوسکایا پیشے کے اعتبار سےاسکول ٹیچر تھیں۔ بعد میں ان کا زیادہ وقت گھر پر اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں گزرا۔ سیاست کے میدان میں وہ تب سامنے آئیں جب سیاسی طور پر متحرک ان کے شوہر کو گرفتار کر لیا گیا۔

اتوار کو ووٹنگ کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ دراصل وہ الیکشن جیت چکی ہیں اور حکومت کو چاہییے کہ وہ اقتدار چھوڑ دے۔ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد ہی مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ تاہم صدر لوکاشینکو نے دھمکی دی تھی کہ وہ ملک میں گڑبڑ کی اجازت نہیں دیں گے اور مظاہرین سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

Swetlana Tichanowskaja
تصویر: Getty Images/AFP/S. Gapon

ڈیل کی افواہیں

پیر 10 اگست کو سویٹلانا ٹیخانوسکایا انتخابی تنائج کو چیلنج کرنے گئی تھیں جب وہ کئی گھنٹوں تک لاپتہ رہیں۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ حکام نے انہیں سات گھنٹے حراست میں رکھا۔

اس دوران بیلاروس میں جمہوریت کے حامیوں اور سکیورٹی حکام کے درمیان جھڑپیں دیکھی گئیں جن میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور کم از کم ایک شخص مارا گیا۔

سویٹلانا ٹیخانوسکایا کے ایک قریبی ذریعے کے مطابق حکومت نے انہیں اور ان کی انتخابی مہم کی انچارج ماریہ موروز کو فوری طور پر خاموشی سے ملک چھوڑنے کا آپشن دیا گیا، جسے انہوں نے قبول کر لیا۔

Belarus Gewalt nach Präsidentenwahl in Minsk
تصویر: Reuters/V. Fedosenko

جمہوری جدوجہد کو دھچکا

مبصرین کے مطابق بیلاروس میں جمہوریت کے حامیوں کے لیے سویٹلانا ٹیخانوسکایا کا یوں ملک سے فرار ہوجانا ایک دھچکا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سویٹلانا ٹیخانوسکایا کو کبھی بھی ایک لیڈر کے طور پر نہیں دیکھا گیا بلکہ انہیں جوعوامی پذیرائی ملی وہ ان کے شوہر اور بیلاروس کے سرکردہ سیاسی کارکن کی مرہونِ منت ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق سویٹلانا ٹیخانوسکایا کو ایک رہنما کی بجائے تبدیلی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اور ملک سے ان کے یوں نکل جانے سے جمہوری تحریک کو شاید عارضی نقصان تو ہو لیکن یہ جدوجہد پھر بھی جاری رہے گی۔

   

Weißrussland Wahlen Demonstration der Oppsition in Minsk
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/V. Tolochko