اُسامہ کے کمپاؤنڈ کی تصاویر، سکیورٹی اہلکار نے روئٹرز کو فروخت کر دیں
5 مئی 2011ایبٹ آباد میں اسامہ کے کمپاؤنڈ کی ان تصویروں میں خون میں نہائی ہوئی تین لاشیں تو نظرآ رہی ہیں تاہم کسی قسم کے ہتھیار نظر نہیں آ رہے۔ یہ تصاویر ایک پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے اتاری تھیں، جو اُس کمپاؤنڈ میں صبح صادق کے وقت ہونے والے حملے کے بعد داخل ہوا تھا۔ ان تصاویر میں دو افراد روایتی پاکستانی لباس میں، جبکہ تیسرا ٹی شرٹ میں ملبوس ہے اور تینوں کے کانوں، ناک اور مُنہ سے خون بہتا دکھائی دے رہا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے والے اس سکیورٹی اہلکار نے یہ دلخراش، خوفناک تصاویر روئٹرز کو بیچ دیں۔
ان تینوں میں سے کوئی شخص بھی بن لادن سے مشابہت نہیں رکھتا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اسامہ بن لادن کی لاش کی تصویر منظر عام پر نہ لانے کا فیصلہ یہی سوچ کر کیا تھا کہ اگر ایسا کر دیا جاتا تو تشدد کی آگ بھڑک اُٹھتی اور القاعدہ تنظیم اس معاملے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی۔
امریکی چینل سی بی ایس سے نشر ہونے والے 60 منٹ دورانیے کے ایک پروگرام میں باراک اوباما نے کہا تھا ’میرا خیال ہے ان گرافک تصاویر کی تشہیر قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے‘۔ ان تصاویر پر جو وقت درج ہے، اُس کے مطابق پہلی تصویر دو مئی صبح ڈھائی بجے اتاری گئی تھی، اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کا باعث بننے والے حملے کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد۔
دیگر تصاویر اس واقعے کے کئی گھنٹوں بعد اتاری گئی ہیں۔ صبح کے پانچ بج کر 21 منٹ اور چھ بج کر 43 منٹ کے دوران۔ ان تصاویر میں کمپاؤنڈ کے اندر ہر طرف کوڑا کرکٹ کا ڈھیر پھیلا ہوا اور امریکہ کی طرف سے متروک شدہ اور مکمل طور پر تباہ شدہ ہیلی کاپٹر دکھائی دیتا ہے۔ اس ہیلی کاپٹر کے ڈھانچے کا مرکزی حصہ، جہاں عملہ، کارگو سامان یا مسافر ہوتے ہیں، جسے Tail Assembly کہتے ہیں، غیر معمولی نظر آتا ہے، جو اس ہیلی کاپٹر کی ایسی خفیہ صلاحیتوں کا پتہ دیتا ہے، جو غالباً پہلے معلوم نہیں تھیں۔
روئٹرز کو ان تصاویر کے مستند ہونے کا یقین ہے، کیونکہ ان سے ملنی والی تفصیلات وہی کچھ بتاتی ہیں جو گزشتہ پیر کو مختلف آزاد ذرائع کی طرف سے اتاری گئی تصاویر سے ملی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اس آپریشن میں امریکی فورسز کا ایک ہیلی کاپٹر مکینیکل خرابی کے سبب لاپتہ ہو گیا تھا۔ اسے بعد میں خود امریکی فورسز نے تباہ کردیا تھا۔
روئٹرز نے جو تصویریں خریدی ہیں، یہ تمام سلسلہ وار اتاری گئی ہیں اور ایک ہی سائز کے پکسلز سے بنی ہوئی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحریف کردہ نہیں ہیں۔ ان تصاویر پر جو تاریخ اور وقت درج ہے، وہ ڈیجیٹل فائل کے میٹا ڈیٹا میں محفوظ ہے، جس کا کام اُس جگہ کی روشنی کو عکاسی کے قابل بنانا ہوتا ہے، جہاں تصاویر اتاری جاتی ہیں۔ یہی وقت اور تاریخ ان تصاویر کے پرنٹ پر بھی درج ہے۔
ان میں سے ایک تصویر میں ایک کمپیوٹر کیبل اور بچوں کی پلاسٹک کی بنی پستول جیسی سبزاور نارنجی رنگ کی چیز ایک لاش کے دائیں بازو کے نیچے پڑی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس کے سر کے نیچے خون ہی خون دکھائی دے رہا ہے۔
دوسری تصویر میں ایک اور شخص خون سے لت پت دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی ناک سے بہتا ہوا خون رخساروں سے ہوتا ہوا پورے سینے پر پھیلا ہوا ہے۔
تیسرا شخص جو ایک ٹی شرٹ میں ملبوث ہے اور اُس کا سر زخموں سے چور ہے، وہ پشت کے بل خون کی ندی میں پڑا نظر آ رہا ہے۔
دریں اثناء گزشتہ منگل کو امریکہ کی طرف سے اس امر کے اعتراف نے بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیا ہے، جس میں کہا گیا کہ اسامہ حملے کے وقت غیر مسلح تھا۔ بہت سے حلقوں کی طرف سے واشنگٹن پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اُس نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسامہ کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی، اس بارے میں بہت سی چیزیں مبہم ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ معاملہ مسلم دنیا کے اندر نزاعی بحث مباحثے کا باعث بن سکتا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی