1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اکتوبر فیسٹ: خواتین جنسی ہراسانی سے کیسے بچتی ہیں؟

5 اکتوبر 2019

می ٹو مہم کے بعد میونخ میں ہونے والے سالانہ اکتوبر فیسٹیول میں پھول فروخت کرنے والی خواتین اب جنسی ہراسانی سے زیادہ آگاہ ہیں۔ یہ خواتین اس سے بچنے کے لیے کیا کرتی ہیں آئیے یہاں ان پر نظر ڈالتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3QltU
München Oktoberfest 2019
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schrader

دو ہفتے دورانیے کے اکتوبر فیسٹ میں پھول فروخت کرنے والی یا بیئر کے ٹینٹوں میں جنہیں جرمن زبان میں ویزن کہا جاتا ہے، مہمانوں کو بیئر یا کھانے پینے کی فروخت کرنے والی خواتین کا روزانہ کا معمول قریب ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ میک اپ، ایسا بلاؤز زیب تن کرنا جیسی میں سینہ واضح ہوتا ہو اور پھر روایتی لباس پہننا جسے ڈرنڈل کہا جاتا ہے۔ ڈرنڈل پر لگے ربن کو خواتین اپنے رشتے کی مناسبت سے دائیں جانب، بائیں جانب یا پھر درمیان میں باندھتی ہیں۔

اور پھر گلے میں ایک روایتی اسکارف اور کپڑوں کے نیچے سائیکلنگ کے لیے استعمال ہونے والے ٹائٹس یا خصوصی زیریں لباس۔ مگر یہ سائیکلنگ شارٹس کیوں؟

ویزن یا ہالز میں میزوں کے درمیان بیئر یا پھر باہر پریٹزل اور پھول بیچنے والی خواتین ان سائیکلنگ شارٹس کو ان لوگوں سے بچنے کے لیے بطور تحفظ پہنتی ہیں جو ان کے جسموں کو دبانے یا چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔

موج مستی کا موڈ

ابھی دوپہر بھی نہیں ہوتی کہ ویزن اکتوبر فیسٹ میں شرکت کے لیے آنے والوں سے بھر چکا ہوتا ہے اور یہ خواتین کھانوں یا بیئر کے بڑے بڑے گلاسوں سے بھرے ہوئے ٹرے لیے میزوں کے درمیان کام میں مصروف ہوتی ہیں۔ لوگ موج مستی میں ہوتے ہیں اور جیسے جیسے شراب کا نشہ بڑھتا ہے، میوزک کے آغاز سے قبل ہی وہاں موجود انجان لوگ بھی دوست لگنے لگتے ہیں۔

Deutschland | Oktoberfest 2019
خواتین ان سائیکلنگ شارٹس کو ان لوگوں سے بچنے کے لیے بطور تحفظ پہنتی ہیں جو ان کے جسموں کو دبانے یا چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔تصویر: DW/V. Dirmaier

اکتوبر فیسٹیول میں کام کرنے والی خواتین  یا وہاں آنے والی مہمان ان سب کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ رواں برس 186 ویں فیسٹیول کے محض پہلے ہی ہفتے میں 33 لاکھ لوگ اس میں شریک ہوئے۔ میونخ پولیس نے اس دوران جنسی ہراسانی کے 25 مقدمات رپورٹ کیے جن میں جنسی زیادتی کے تین واقعات بھی شامل تھے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ پولیس نے 2017ء کے فیسٹیول کے دوران کام کرنے والی اور مہمان خواتین کی طرف سے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے ریکارڈ 67 معاملات درج کیے تھے۔ پولیس ترجمان کلاؤڈیا کُنزل کے مطابق 2018ء میں یہ تعداد کم ہو کر 45 رہی تھی۔

می ٹو مہم شروع ہونے کے بعد جنسی ہراسانی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ خواتین اور بعض اوقات مرد حضرات بھی جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کو برداشت کرنے کو اب تیار نہیں اور ایسی صورت میں پولیس سے رابطہ کرتے ہیں۔

لوگوں کے رویوں میں تبدیلی

ویٹرس کے کولہوں پر چپت لگا دینا، پھول فروخت کرنے والے لڑکی کے گالوں کو سہلانا یا پھر اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی کا بوسہ لے لینا: اب اس طرح کے رویے برداشت نہیں کیے جاتے اور اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ اس طرح  سے حدود سے تجاوز کرنے کے بارے میں عوامی رویے اب بہت زیادہ بدل چکے ہیں۔

München Oktoberfest 2019
می ٹو مہم شروع ہونے کے بعد جنسی ہراسانی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schrader

اب بہت سے پیچیدہ سوالات سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں جن کے جواب سادہ نہیں ہیں: مردوں کو کس بات کی اجازت حاصل ہے؟ اور خواتین کے بارے میں کیا ہے؟ ایک مرد ایک خاتون کے کس حد تک نزدیک آ سکتا ہے؟ سرحدیں کہاں تک ہیں؟ کیا باس کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والی کسی خاتون کارکن کو پھول دے؟ کیا کسی کے ساتھ لگاؤ کی علامات کو غلط بھی سمجھا جا سکتا ہے؟

ان معاملات پر اب بحث جاری ہے اور نتیجتاﹰ جنسی ہراسانی کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی اور اس سے بچاؤ کی تدابیر بھی واضح ہو رہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ا ب ا / ش ح (ڈگمار اُلرش برائیٹنباخ)