اگر صدر ٹرمپ ہارتے ہیں تو!
29 اکتوبر 2020امریکی صدارتی الیکشن اب چار دن کی دوری پر ہیں۔ گو کہ 66 ملین سے زائد امریکی ارلی ووٹنگ میں اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود صدارتی مہم میں تیزی آ چکی ہے۔
مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار صدر ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار سابق نائب صدر جوبائیڈن کے درمیان ہے اور دونوں کی توجہ کا مرکز سوئنگ سٹیٹس ہیں۔ ابھی تک کے سروے کے مطابق جوبائیڈن کو اپنے مدمقابل پر سبقت حاصل ہے۔ ریپبلکن پارٹی مجموعی طور پر سرمایہ داروں کی طرف داری کرتی ہے۔ بڑی کارپوریشنوں اور کاروباری افراد کو ٹیکس کی چھوٹ دیتی ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی، کارپوریشنوں اور امیر افراد کو ٹیکس کی چھوٹ کم دیتی ہے اور عوامی فلاح و بہبود کے پروگرام جیسے کہ ہیلتھ اور تعلیم میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔
امریکی صدارتی الیکشن میں کووڈ انیس، ہیلتھ کئیر ، ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتی ہوئی سفید فام نسل پرستی جیسے ایشوز پر بحث ہو رہی ہے۔ ان مسائل پر ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن، صدر ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ جوبائیڈن کا کہنا ہے صدر ٹرمپ کووڈ انیس سے پیدا ہونی والی صورتحال سے نمٹنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں اور اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے سائنس دانوں کی طرف سے دی گئی حفاظتی تدابیر کا مذاق اڑاتے ہیں۔
ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اب تک 220,000 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ یاد رہے کہ موسم سرما کی آمد آمد ہے اور ایک بار پھر کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں تیزی آ رہی ہے بلکہ ایک دن میں پچھتر ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وائرس سے پہلے امریکی معیشت ترقی کی بلند ترین سطح پر تھی اور بیروزگاری کی شرح کم ترین سطح یعنی 3.5 فیصد تھی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس کورونا وائرس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور یہ ملک کی اکانومی کو بند کرنے کے در پے ہیں جبکہ میں اس کو کھولنا چاہتا ہوں اور ایک بار پھر امریکی معیشت کو نو ماہ پہلے والی سطح پر لانا چاہتا ہوں تاکہ ملک میں جاری بے روزگاری ختم ہو سکے۔
امریکی عوام کا بڑا مسئلہ ہیلتھ کئیر کا ہے۔ سابق صدر اوباما نے اپنے دور میں ایک تاریخ ساز قانون افورڈ ایبل کئیر ایکٹ، جسے اوباما کئیر بھی کہا جاتا ہے، پاس کیا تھا۔ اس کے تحت ہر امریکی شہری کو ہیلتھ انشورنس کروانا لازمی قرار دیا گیا تھا اور ہر شخص کو اس کی آمدنی کے حوالے سے انشورنس کی رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ زیادہ آمدنی والے زیادہ اور کم آمدنی والے کم انشورنس ادا کرتے ہیں اور جو غریب ہے ان کی انشورنس ریاست کی طرف سے ادا کی جاتی ہے۔
ریپبلکنز نے اس قانون کی سخت مخالفت کی تھی اور صدر ٹرمپ نے 2016ء کے الیکشن میں وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آ کر اس قانون کو ختم کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے پوری کوشش کی کہ اس قانون کو ختم کیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا اور معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔
سال 2019 اور 2020 میں امریکا کو تاریخ کی شدید ترین وائلڈ فائر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سائنسدان اسے ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ قرار دے رہے ہیں جبکہ صدر ٹرمپ ایسی کسی بھی وارننگ پر دھیان دینے کو تیار نہیں۔ جب پہلے صدارتی مباحثے میں صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کو کیسے ختم کریں گے تو انہوں نے ایک بلین درخت لگانے کا منصوبہ پیش کیا جبکہ صدر بائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کئی بلین ڈالر پر مبنی کلین انرجی پراجیکٹ کا اعلان کیا ہے، جس سے نہ صرف ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے گا بلکہ اس کے نتیجے میں ہزاروں نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
یہ درست ہے کہ کووڈ انیس سے پہلے صدر ٹرمپ اپنی مقبولیت میں سب سے آگے تھے اور عمومی طور پر یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ 2020ء کا الیکشن بھی صدر ٹرمپ جیت جائیں گے مگر برا ہو کووڈ انیس کا، جس سے ٹرمپ کی مقبولیت میں دراڑیں پڑنی شروع ہو گئیں۔ صدر ٹرمپ کی مقبولیت کو ایک اور دھچکا سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت سے بھی لگا جب سفید فام پولیس آفیسر نے جارج فلائیڈ کا نو منٹ تک گلا دبائے رکھا، جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگیا۔
صدر ٹرمپ نے اس ہلاکت کی مذمت کرنے کی بجائے پولیس کا دفاع کیا، جس سے معاملات زیادہ خراب ہوئے اور پورے امریکا میں اس ہلاکت کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا اور اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹس میں کہا کہ ’فاشسٹ گروپ‘ اس ملک کی ترقی کے خلاف ہیں اور انہوں نے سفید فام نسل پرست گروہوں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں ’فاشسٹوں‘ سے نمٹنے کا کہا۔
یہ انتخابات امریکا کے 59ویں صدارتی انتخابات ہیں اور آج تک کسی بھی صدارتی امیدوار نے اس کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھایا۔ لیکن صدر ٹرمپ بڑے پیمانے پر دھاندلی کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ کووڈ انیس ہے اور ڈیموکریٹک ووٹرز بڑی تعداد میں ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ اسے ایک فراڈ کہتے ہیں۔ پہلے صدارتی مباحثے میں جب ماڈریٹر نے پوچھا کہ کیا آپ انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے تو انہوں نے کہا ’میں دیکھوں گا کہ انتخابات کتنے شفاف ہوئے ہیں۔‘ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر صدر ٹرمپ ہارتے ہیں تو حالیہ امریکی تاریخ میں ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔