اہانت پیغمبر کا معاملہ: بھارت کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں
7 جون 2022بھارت میں ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو سینیئر اراکین کی جانب سے پیغمبر اسلام سے متعلق اہانت آمیز بیانات کے خلاف عالمی مذمت کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اب تک 15 سے زائد ممالک سرکاری طور پر بیانات جاری کر کے اپنی ناراضگی ظاہر کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
بھارتی حکومت کی غصہ کم کرنے کی کوشش
کئی ملکوں نے بھارتی سفارت کاروں کو طلب کر کے شدید احتجاج بھی کیا ہے۔ گوکہ مودی حکومت نے بالخصوص خلیجی اور مسلم ملکوں کے غصے کو کم کرنے کی کوشش میں سرکاری طور پر ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ بھارت تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہے۔ اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے متنازعہ بیانات دینے والے دونوں رہنماؤں کو معطل کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ بھارتی سفارت کاروں کے لیے بھارت کا دفاع کرنا عملاً مشکل ہو رہا ہے۔
اب تک جن ملکوں نے اہانت پیغمبر اسلام کے خلاف کھل کر بیانات دیے ہیں ان میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، انڈونیشیا، عراق، ایران، اردن، لیبیا، کویت، قطر، بحرین، لیبیا، مالدیپ، افغانستان اور پاکستان شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر ممالک کے علاوہ 57 مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے بھی حکمراں جماعت کے رویے کی سخت مذمت کرتے ہوئے بھارت سرکار سے باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
داخلی سیاست کا اثر بیرونی تعلقات پر بھی پڑے گا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین کرنے پر بھارت کے خلاف دنیا بھر میں جس طرح کا سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے اور بعض ملکوں میں بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہو چکا ہے، اس کے بعد بھارت کی آنکھیں کھل جانی چاہییں۔ بھارت کو اس سے یہ جان لینا چاہیے کہ تقسیم کی سیاست کے بین الاقوامی مضمرات ہوتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سن 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جس طرح منافرت کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے، اگر اس پر فوراً قابو نہیں پایا گیا تو اس سے بھارت کو نہ صرف داخلی بلکہ بیرونی سطح پر بھی متعدد پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’بھارت کو سبق سیکھنا چاہیے‘
اسٹریٹیجک امور کے معروف ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی زہریلی سیاست سے دہلی کو یہ سبق لینا چاہیے کہ جو کچھ بھارت میں ہوتا ہے وہ بھارت تک محدود نہیں رہ سکتا۔ چونکہ بھارت کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات اور اس کی سفارت کاری اور دیگر ملکوں کے ساتھ اقتصادی شراکت داری مضبوط ہو رہی ہے اس لیے اس کی داخلہ سیاست کے ناخوشگوار اثرات بیرون ملک رشتوں پر بھی پڑیں گے۔
اقوام متحدہ کی اپیل
اس دوران اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا،"ہم تمام مذاہب کے لیے احترام اور رواداری کی مکمل حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔"
دریں اثنا بھارتی وزارت خارجہ نے او آئی سی اور پاکستان کی جانب سے نکتہ چینی کو"غیر ضروری اور تنگ نظری" قرار دیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر "مذہبی آزادی کو کچلنے "کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا، "پاکستان کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔ وہ خود ہی اقلیتوں کے حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اسے دیگر ملکوں کے معاملات پر بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
او آئی سی کے بیان پر بھارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیانات دینا مسلم ملکوں کی اس تنظیم کے دائرہ کار سے باہر ہے۔