ای سی پی کا پی ٹی آئی کو نوٹس: پارٹیوں میں جمہوریت زیر بحث
3 اگست 2023ناقدین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں میں انتخابات مثبت ہيں لیکن پاکستان میں جس طرح یہ انتخابات ہوتے ہیں انہیں جمہوری روایات کا عکاس نہیں گردانا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو نوٹس بھیجا ہے کہ وہ پارٹی میں انتخابات کرائیں ورنہ ان کی پارٹی انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے اہل نہیں رہے گی۔ ای سی پی نے جواب طلبی کے ليے عمران خان کو چار اگست کو طلب بھی کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ بھیجے گئے اس نوٹس میں پارٹی کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر انتخابات کے نتائج الیکشن کمیشن میں نہیں جمع کرائے گئے، تو پھر پارٹی کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ان کو چار اگست کو الیکشن کمیشن کے آفس میں آنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ای سی پی کا دعوی ہے کہ ماضی میں دو نوٹس پی ٹی آئی کو جاری کیے اور ان میں کہا گیا کہ پارٹی انتخابات کرائے لیکن وہ ایسا نہ کر سکی۔ نوٹس میں ای سی پی کے پرانے نوٹس کا بھی تذکرہ ہے جو 24 مئی سن 2021 کو جاری کیا گیا تھا۔ ''24 مئی کے اس نوٹس کے بعد 27 جون 2021 کو شوکاز نوٹس بھی دیا گیا تھا، جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارٹی کے اندر ہونے والے یہ انتخابات 21 جون کو ہو جانے چاہیے تھے۔ نوٹس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے ان نوٹس کا جواب دیا تھا اور پی ٹی آئی کو اکیس جون 2022 تک ان انتخابات کو کرانے کی مہلت دے دی گئی تھی۔‘‘
واضح رہے الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق سیاسی جماعتیں پارٹی انتخابات کرانے اور نتائج الیکشن کمیشن میں جمع کرانے کی پابند ہيں۔
ای سی پی کا موقف
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان ہارون شنواری نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''کیونکہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے اس لیے اس پر زیادہ بات نہیں کی جا سکتی۔ مختلف جماعتوں نے اپنے منشور میں جماعتی انتخابات کے حوالے سے تاریخ دی ہوئی ہے۔ کچھ جماعتیں دو سال بعد انتخابات کراتی ہیں جبکہ کچھ چار سال بعد کراتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس 160 سے زیادہ رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں ہیں۔ جس جماعت کی انتخابات کے حوالے سے باری آتی ہے، اسے نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔‘‘
’ای سی پی متعصب ہے‘
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا اس کے ساتھ رویہ امتيازی ہے۔ پی ٹی آئی کی خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہمارے بچے اسکول نہیں جا پا رہے۔ ہمارے کارکنان کو پکڑا جا رہا ہے۔ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ آج ہی ایک یوٹیوبر کو صرف اس لیے گرفتار کر لیا گیا کہ اس نے عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ تو ایسی صورت حال میں ہم پارٹی کے اندر انتخابات اس وقت کیسے کرا سکتے ہیں۔‘‘
خفیہ ایجنسیوں کے افسران کی شناخت ظاہر کرنے پر قید کی سزا
پیٹرول اور ڈیزل مہنگا: ’یہ کام جانے والی حکومت تو نہیں کرتی‘
باجوڑحملہ: حکومت دہشت گردانہ کاروائیوں کی روک تھام میں ناکام کیوں؟
کنول شوزب کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان ان کے ووٹرز کو کنفیوژ کرنا چاہتا ہے۔ ''اس لیے اس طرح کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا ہے اور پاکستان الیکشن کمیشن پر بھی طاقتور حلقوں کی طرف سے دباؤ ہے۔ اسی لیے وہ اس طرح کے مطالبات کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ان کی پارٹی نے جون دو ہزار بائیس میں پارٹی انتخابات کرائے تھے۔ ''اور بعد میں پارٹی کے آئین میں تبدیلی کی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن نے پارٹی کے آئین اور ترامیم پر اعتراضات کر دیے اور بعد میں ہماری پارٹی کی فائل ہی غائب کر دی۔‘‘
معمول کے کام پر بلاوجہ کا شور
جب ڈی ڈبلیو اردو نے کنول شوزب کے اس الزام کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان ہارون شنواری سے دریافت کیا، تو انہوں نے کہا کہ وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے اور وہ صرف یہی بتا سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو نوٹس ایشو کیا گیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی بلا وجہ اس مسئلے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن کے قوانین کی ضرورت ہے اور ہر سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے پورا کرے۔ پی پی پی کے رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہم نے بھی الیکشن قوانین کے مطابق اپنی پارٹی میں انتخابات کرائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں کے ہم نے انتخابات کرائے اور ان کے نتائج ہم نے الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرا دیے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ وہ اس معاملے کو متنازعہ بنائیں۔‘‘
انتخابات کی تیاری جاری ہے
جمعیت علما اسلام کے رہنما محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی بھی انتخابات کرانے جا رہی ہے۔ محمد جلال الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''الیکشن کمیشن کے قوانین کہتے ہیں کہ پانچ برس سے زیادہ دیر نہیں ہونی چاہیے۔ کوئی پارٹی دو سال بعد پارٹی انتخابات کرائے یا کوئی چار سال بعد لیکن پانچ سال سے زیادہ نہیں ہونے چاہیے۔‘‘
محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کے مطابق ان کی پارٹی میں رکنیت سازی جاری ہے۔ "اور ہم جلد ہی انتخابات کرانے جارہے ہیں کیونکہ یہ ایک قانونی ضرورت ہے۔"
صرف ڈرامہ ہے
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں پارٹی انتخابات صرف رسمی ہوتے ہیں اور ان میں جمہوری اقدار کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات ڈرامے کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جمہوری ممالک میں پارٹی سربراہ کو پارٹی انتخابات کے وقت چیلنج کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں پارٹی چیئرمین یا پارٹی صدر بلا مقابلہ منتخب ہوجاتے ہیں۔ جب یہ بلا مقابلہ منتخب ہوں گے تو باقی کا بھی سیلیکشن ہوگا۔"
عمارعلی جان کے مطابق اس کے علاوہ پارٹی کے کلیدی عہدوں کے انتخاب پر بھی جمہوری روایات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ "پارٹی کے اہم عہدے سربراہ کے رشتے داروں یا من پسند افراد کو دے دیے جاتے ہیں۔ تو اس طرح کے انتخابات سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔"