ایتھلیٹکس کی دنیا کا لرزہ خیز اسکینڈل
2 اگست 2015آٹھ سو سے زائد ایتھلیٹس میں غیر ممنوعہ ادویات کے استعمال کے بارے میں یہ خبریں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے ممبران اور کھیلوں کی فیڈریشنز کے سربراہان کے لیے ایک دھچکا قرار دی جا رہی ہیں۔ عالمی کھیلوں کے یہ نمائندے اس وقت ملائیشیا میں ایک اجلاس میں شریک ہیں۔
ایتھلیٹکس کی فیڈریشنز کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن (آئی اے اے ایف) کی طرف سے کیے گئے تجزیات کے نتائج متعدد خبر رساں اداروں کو موصول ہوئے ہیں، جن کے مطابق مشتبہ طور پر کھلاڑیوں کی ایک بڑی تعداد ڈوپنگ ٹیسٹ میں فیل ہو گئی۔ ان کھلاڑیوں میں اولمپک اور ورلڈ چیمپئن شپ مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے والے ایتھلیٹس بھی شامل ہیں۔ آئی اے اے ایف نے ان کھلاڑیوں کے خون کے نمونے حاصل کیے تھے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یہ کوئی ممنوعہ مواد استعمال کرنے کے مرتکب ہوئے تھے یا نہیں۔ آئی اے اے ایف اس بات پر بھی حیران ہے کہ یہ رپورٹ میڈیا کو کیسے ملی؟
برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز اور جرمن براڈ کاسٹر اے آر ڈی نے کہا ہے کہ انہیں بارہ ہزار خون کے نمونوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے اور یہ نمونے گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران پانچ ہزار ایتھلیٹس سے حاصل کیے گئے تھے۔ ان نتائج کے مطابق آٹھ سو سے زائد کھلاڑیوں نے ڈوپنگ کی ہوئی تھی یا ان کے بلڈ ٹیسٹ کے نتائج ’’غیر معمولی‘‘ تھے۔
آئی اے اے ایف نے کہا ہے کہ اس اسکینڈل کے بارے میں جلد ہی تحقیقات شروع کر دی جائیں گی۔ ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی نے کہا ہے کہ ان الزامات کا دائرہء کار بہت وسیع ہے اور ماضی میں اتنے زیادہ ایتھلیٹس کی طرف سے ڈوپنگ کی کوئی مثال تک نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی ایتھلیٹس پر ڈوپنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن ان کی تعداد اس قدر زیادہ نہیں تھی۔ ایک آزادانہ کمیشن پہلے ہی اس سلسلے میں تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ رپورٹیں ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہیں، جب چند ہی ہفتے بعد چین کے دارالحکومت بیجنگ میں عالمی چیمپئن شپ کا آغاز ہونے والا ہے اور اسی موقع پر آئی اے اے ایف کے نئے صدر کا انتخاب کیا جائے گا۔
آئی اے اے ایف کے نائب صدر سرگئی بوبکا نے ہنگامی اجلاس کے بعد کہا ہے کہ اگر الزامات سچ ہیں تو ذمہ داران سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار ایک سے لے کر سن دو ہزار بارہ کے درمیان اولمپکس اور عالمی چیمپئن شپ میں ایک تہائی میڈلز اُن ایتھلیٹس نے جیتے، جن کے ’ٹیسٹ مشکوک‘ تھے۔ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ڈوپنگ سے متعلق یہ معاملہ اتنی دیر تک منظر عام پر کیوں نہیں آ سکا اور متاثرہ کھلاڑیوں کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہ لیا گیا؟