ایتھنز حکومت شدید دباؤ کا شکار
19 ستمبر 2011ایک بین الاقوامی گروپ اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ کیا یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔ عوام اور اپوزیشن کی نظر میں یہ صورتحال بہت زیادہ ڈرامائی نہیں ہے۔ وہ ابھی ایتھنز حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والی بچتی پیکیج سے نالاں ہیں۔ گزشتہ روز یونانی حکومت کے پانچ گھنٹے طویل ہنگامی اجلاس کا کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ملکی وزیر مالیات ایوانگیلیوس وینی زیلیوس نے کہا کہ ملک کو مالی بحران سے باہر نکالنے کے لیے پوری قوم کو مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔ انہوں نے عوام، مزدور تنظیموں، صحافیوں اور سیاستدانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس صورتحال میں متحد رہیں تا کہ بین الاقوامی سطح پر یونان کی مدد کی جا سکے۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امداد کے موضوع پر یونانی معاشرہ بٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین اس حوالے اختلاف رائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی قدامت پسند جماعت کے سربراہ انٹونس سماراس کے بقول’’حکومت اپنے غلط فیصلوں کے بھنور میں ہی پھنس کر رہ گئی ہے۔ وہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ اپنے ہدف کو حاصل کر سکے۔‘‘
اس وجہ سے سماراس نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ مالی منڈیوں میں استحکام لانے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکسوں میں کمی کی جائے۔ اس حوالے سے وزیر مالیات ایوانگیلیوس وینی زیلیوس کا کہنا ہے ’’ اگر جناب سماراس سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مؤقف سے ہمارے یورپی ساتھیوں کو متاثر کر سکتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ ان کی جانب سے پیش کیا جانے والا منصوبہ بحران کو ختم نہیں بلکہ اسے مزید شدید کر سکتا ہے۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اس صورتحال میں کیا کیا جانا چاہیے۔‘‘
یونان کو اس موقع پر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس کا بچتی پروگرام کامیاب ہے اور اسے جو قرضے ملے ہیں، ان کی مدد سے ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی متعدد یورپی سیاستدان اس بات پر بضد ہیں کہ یونان کو قرضوں کی چھٹی قسط اسی صورت میں دی جائے جب وہ اقتصادی شعبے میں یورپی یونین کی تجاویز پر عمل پیرا ہو۔ اس حوالے سے بین الاقوامی نگران گروپ کی جانب سے گرین سنگل کا ابھی انتظار کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت: افسر اعوان