ایتھنز کا تھری اسٹار ہوٹل، اب مہاجرین کے پاس
تین سو سے زائد مہاجرین اور پناہ گزینوں نے یونانی دارالحکومت ایتھنز کے ایک سات منزلہ خالی ہوٹل کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن سٹی پلازہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کر لیا۔
فیملی ہوٹل
سٹی پلازہ ہوٹل خالی پڑا تھا، مگر اپریل میں افغان، ایرانی، عراقی اور شامی مہاجرین اپنے اہل خانہ سمیت اس ہوٹل میں رہنے لگے۔ یہاں مقیم مہاجرین کے خاندان زیادہ تر بچوں اور معمر افراد کے ہم راہ ہیں۔
برسوں سے بند
یونانی اقتصادی بحران کے دوران اس ہوٹل کے مالک کو متعدد مالیاتی مسائل درپیش ہوئے، تو اس نے سٹی پلازہ ہوٹل بند کر کے یہ جائیداد بیچنے کی کوشش شروع کر دی۔ اب اس ہوٹل کے استقبالیہ پر مہاجرین کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ان کے کمروں کی چابیاں ان کے حوالے کی جاتی ہیں۔
ہوٹل میں منتقلی
ایک شامی خاندان جو سٹی پلازہ ہوٹل میں منتقل ہوا ہے۔ متعدد افراد اس مہاجر بستی سے اس ہوٹل میں منتقل ہوئے جو اس کیمپ کی دگرگوں اور ابتر صورت حال کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ مہاجر بستی میں نہ نکاسیء آب کا کوئی درست انتظام تھا، نہ سر چھپانے کی کوئی مناسب جگہ اور نہ ہی معقول مقدار میں خوراک۔
صفائی کا خیال رکھیے
ہر روز یہاں بسنے والے مہاجرین کمروں اور اس ہوٹل کی عمارت کی صفائی کرتے ہیں۔ دو شامی بچے، دس سالہ سیزر اور سات سالہ سدرا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا جا کر مٹی، گرد اور دھول کو ختم کرنے میں مدد کرتے نظر آتے ہیں۔
چھت کی تلاش
کمپیوٹر کے ماہر اور مترجم علی جعفانی کی تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کی اہلیہ وجیہہ اور دو بیٹے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یہ افراد پہلے ایتھنز کے پرانے ہوائی اڈے میں پناہ گزین تھے، تاہم اب یہ خاندان اس ہوٹل میں آن مقیم ہوا ہے۔ جعفانی کا کہنا ہے، جب انہوں نے افغانستان سے سفر کا آغاز کیا تو سرحدیں کھلی ہوئی تھی، تاہم تین ہفتے بعد جب وہ یونان پہنچنے تو صورت حال تبدیل ہو چکی تھی اور وہ یونان میں پھنس کر رہ گئے۔
رضاکار بھی موجود
اطالوی رضاکار اور شامی مہاجرین مل کر اس ہوٹل کے باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مصروف ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر یہاں خیرات کی گئی خوارک پہنچتی ہے اور یہاں موجود یہ افراد حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا پکا کر یہاں مقیم افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔
کھانے کا وقت
ہوٹل کے کھانے کے مقام پر یہ کھانا پیش کیا جاتا ہے، جہاں متعدد شہریتوں کے حامل افراد مل کر اسے نوش کرتے ہیں۔
بچوں کا کمرہ
رضاکاروں نے ہوٹل میں ایک کمرہ بچوں کے مشاغل کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے۔ بچے یونان میں موجود مہاجرین کا ایک بڑا حصہ ہیں اور یہی اس ہوٹل میں موجود مہاجرین اور ان کے بچوں کی تعداد کے تناسب سے بھی ظاہر ہے۔
اب وقت سونے کا ہے
فیضان داؤد تین برس کے ہیں اور ان کے بھائی راشد کی عمر سات برس ہے۔ یہ دونوں شام سے ہجرت کر کے یونان پہنچنے والے ایک خاندان کے ہمراہ ہیں۔ سٹی پلازہ پہنچنے سے پہلے، یہ ایک ایسی عمارت میں مقیم تھے، جہاں سو مہاجرین رہ رہے تھے جب کہ وہاں بیت الخلا صرف ایک تھا۔ یہاں اس خان دان کے پاس بیت الخلا اور جائے حمام اپنا ہے۔