1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

تیگرائی رہنما کا وزیراعظم سے ’پاگل پن بند کرنے‘ پر زور

1 دسمبر 2020

ایتھوپیا کے تیگرائی علاقے میں جاری لڑائی سے اب تک سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ ہزاروں اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک سوڈان کے پناہ گزین کیپموں میں ہزاروں افراد امداد کے منتطر ہیں۔

https://p.dw.com/p/3m3Pc
Äthiopien Konflikt in Tigray | Debretsion Gebremichael
تصویر: Tiksa Negeri/REUTERS

 تیگرائی عوامی محاذ آزادی نامی تنظیم (ٹی پی ایل ایف) نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ایتھوپیا کی فوج کے خلاف لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ٹی پی ایل ایف کے رہنما گیبرے مائیکل نے کہا کہ ان کی تنظیم کے جنگجو آئندہ بھی ایتھوپیا کی فوج کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی تب تک جاری رہے گی، جب تک تیگرائی کی سرزمین پر 'مسلح دراندازی‘ کرنے والے موجود رہیں گے۔

ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبی احمد نے گزشتہ ہفتے کے روز تیگرائی کے علاقائی دارالحکومت پر ملکی فوج کے قبضے کے بعد اعلان کر دیا تھا کہ تیگرائی کا خونریز تنازعہ اب ختم ہو گیا ہے۔

 خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ( اے پی) کے ساتھ ٹیلی فون پر دیےگئے ایک انٹرویو میں گیبرے مائیکل نے کہا کہ وہ اب بھی تیگرائی کے دارالحکومت میکیلے کے مضافات میں موجود ہیں۔

ایتھوپیا کی فوج نے اتوار کے روز اعلان کیا تھا کہ تیگرائی کے علاقے پر اب اس کا کنٹرول ہے لیکں تیگرائی رہنما نے وزیراعظم آبی احمد کی فتح کو تسلیم کرنے کے بجائے کہا ہے، ’’ہمیں یقین ہے کہ جیت ہماری ہو گی۔ انہوں نے ایتھوپیائی فورسز پر تیگرائی کے لوگوں کی ’نسل کُشی‘ کا بھی الزام عائد کیا۔

اس علاقے میں ایک ماہ قبل لڑائی شروع ہوئی تھی اور تب سے یہ علاقہ باقی دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ وہاں ہونے والی ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں جاننا مشکل ہے اور فریقین کے جانب سے، جو دعوے کیے جا رہے ہیں، ان کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق بھی فی الحال ناممکن ہے۔

Tigray-Konflikt | Mai-Kadra | Amhara-Miliz
تصویر: EDUARDO SOTERAS/AFP

سن 2018 میں وزیراعظم آبی احمد کے اقتدار میں آنے سے قبل تقریباً تین عشروں سے ٹی پی ایل ایف مخلوط مرکزی حکومت کا حصہ تھی اور ایک طرح سے ایتھوپیا پر اس کا غلبہ تھا۔ تقریبا 27 سالہ دور اقتدار میں شعبہ زراعت اور بچوں کی صحت کے شعبے میں ملک نے کافی ترقی بھی کی لیکن طویل عرصے تک واحد سیاسی جماعت کے غلبے سے نوجوانوں میں مایوسی اور بے چینی بھی پیدا ہوئی۔

آبی احمد نے ملک میں سیاسی اصلاحات کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن ٹی پی ایل ایف کا الزام ہے کہ وہ اسے نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ نظر انداز بھی کر رہے ہیں۔ تنازعے کی اہم وجہ علاقے میں بسنے والے تقریبا 60 لاکھ افراد کی حق خود ارادیت کا مطالبہ بھی ہے۔

ٹی پی ایل ایف کے رہنما گیبرے مائیکل نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے ملکی افواج کے بہت سے فوجیوں کو قیدی بنا لیا ہے، جن میں ایک جنگی طیارے کا پائلٹ بھی شامل ہے۔ اس جنگی طیارے کو گزشتہ ہفتے مار گرانے کا دعوی کیا گيا تھا۔

انہوں نے کوئی تعداد تو نہیں بتائی تاہم اس بات پر زور دیا کہ اس لڑائی میں ''عام شہری بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘  انہوں نے ملکی فورسز پر لوٹ مار کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔ لیکن آبی احمد نے پیر کے روز پارلیمان سے خطاب میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میکیلے اور اس کے مضافاتی علاقوں پر قبضے کے دوران ان کی فوج نے کسی بھی شہری کو نشانہ نہیں بنایا۔

ان کا کہنا تھا، ''میکیلے ہمارا ہے، اسے ہمارے ذرائع سے تعمیر کیا گيا تھا۔ ہم اسے ہرگز تباہ نہیں ہونے دیں گے۔ میکیلے میں آپریشن کے دوران ایک شخص کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ وفاقی فورسز تیگرائی کے رہنماؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جو دارالحکومت کے مغرب کی جانب فرار ہوئے ہیں اور وہ بہت ہی جلد پکڑے جائیں گے۔

اقوام متحدہ کی مدد کی اپیل

ایک ایسے وقت جب دونوں رہنما ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کے مطابق تقریبا 45 ہزار افراد اس تنازعے سے بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر نے سوڈان کے کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ ان کیمپوں میں حالات بہت مشکل ہیں۔ وہاں کام کرنے والے عالمی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمپ میں مقیم افراد وبائی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

ص ز/ ا ا  (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں