1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

ایتھوپیا: تیگرائی پر جنگ کے بادل، سلامتی کونسل کی میٹنگ

25 نومبر 2020

اقوام متحدہ نے ایتھوپیا میں بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیوں اور پناہ گزینوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف ایتھوپیائی حکومت کا کہنا ہے کہ تصادم فیصلہ کن مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3lmmC
Äthiopien | Menschen fliehen aus der Tigray Region
تصویر: Mohamed Nureldin Abdallah/REUTERS

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایتھوپیا کے تیگرائی خطے میں جاری تصادم کے حوالے سے غیر رسمی بات چیت کی ہے، جس سے اس تشویش ناک صورت حال کے تئیں بین الاقوامی برادری کی بڑھتی ہوئی فکر مندی کا اندازہ ہوتا ہے۔

تیگرائی خطے کی حکمراں جماعت کی وفادار فورسز پچھلے تین ہفتوں سے ایتھوپیا کی حکومتی فوج کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی، شہریوں کی اموات اور قرنِ افریقہ میں وسیع تر عدم استحکام کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

یورپی اور افریقی اراکین کے مابین بند کمرے میں میٹنگ کے انعقاد کے حوالے سے اتفاق رائے نہیں ہونے کے باوجود منگل کے روز اس معاملے پر بات چیت ہوئی۔ افریقی ملکوں نے میٹنگ میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تاہم جرمنی، فرانس، برطانیہ، بیلجیئم اور اسٹونیا نے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھیے: ایتھوپیا: حکومتی فوج نے تیگرائی دارالحکومت کا محاصرہ کرلیا

میٹنگ کے بعد ایک افریقی سفارت کار کے بقول، ”جنوبی افریقہ نے وقت مانگا تھا تاکہ سفراء آپس میں صلاح ومشورے اور اس معاملے میں افریقی یونین سے رجوع کرسکیں۔ کوئی بیان جاری کرنے سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوسکتا ہے۔"

ایک یورپی سفارت کار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ''یورپی ملکوں نے تشویش کا اظہار کیا، نسلی نوعیت کے تشدد کی مذمت کی اور شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔" یہ میٹنگ تقریباً ایک گھنٹے بیس منٹ تک جاری رہی لیکن اس کے اختتام پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

Äthiopien | Videostill Ethiopian News Agency | Militär
ایتھوپیا کی حکومتی فوج نے تیگرائی کے دارالحکومت میکیلے کا محاصرہ کرلیا ہے۔تصویر: Ethiopian News Agency/AP Photo/picture alliance

شہریوں کے تئیں فکر مندی

اقوام متحدہ کی کمشنر برائے حقوق انسانی مشیل بیچلیٹ نے منگل کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین کو اپنے افواج کو واضح اور غیرمبہم احکامات دینے چاہییں کہ وہ بین الاقوامی قوانین پر عمل کرتے ہوئے شہریوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم جاری کیے جانے کے بعد تیگرائی صوبے کے دارالحکومت میکیلے کے اطراف میں بڑی تعداد میں ٹینک اورتوپ لگائے جانے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا۔

بیچلیٹ کے بقول ”دونوں طرف سے میکیلے کے لیے جنگ کے حوالے سے انتہائی جارحانہ بیان بازی کافی خطرناک اشتعال انگیزی ہے اور اس کی وجہ سے پہلے سے ہی خوف زدہ اور پریشان حال شہریوں کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے۔"

یہ بھی پڑھیے: عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس پر تیگرائی باغیوں کی حمایت کا الزام

ایمنسٹی انٹرنیشنل ایتھوپیا کی ریسرچر فصیحہ ٹیکلے نے بھی بیچلیٹ کی فکرمندی کی تائید کرتے ہوئے فریقین سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”توپ خانے، مورٹار لگائے جانے سے ہمیں حقیقتاً تشویش ہے اور فضائی بمباری کی وجہ سے شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔"  ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام متحارب فریقین کو ”تفریحی مقامات اور سویلین تنصیبات مثلاً ہسپتالوں، اسکولوں اور مذہبی اداروں کو نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔"

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 4 نومبر کو اس بحران کے آغاز کے بعد سے تقریباً چالیس ہزار ایتھوپیائی پناہ گزین مشرقی سوڈان ہجرت کرچکے ہیں۔

Äthiopien | Tigray | Massaker in Mai Kadra
ایک شخص اس مقام کی نشاندہی کرتے ہوئے جہاں غیر تیگرائیو ں کا قتل کرکے لاشیں ڈال دی گئی تھیں۔تصویر: Eduardo Soteras/AFP/Getty Images

تیگرائیوں پر قتل عام کا الزام

ایتھوپیا کے انسانی حقوق کے قومی ادارے نے منگل کے روز اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنوب مغرب تیگرائی میں مقامی نوجوانوں کے ایک گروپ نے کم از کم 600 افراد کا قتل کردیا ہے۔ مائی۔ کدرا قصبے میں ہونے والے اس قتل عام کے بارے میں پہلی مرتبہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبر دی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ سامری نامی نوجوانوں کے ایک گرو پ نے 9 نومبر کو غیر تیگرائی مزدوروں کو اپنا نشانہ بنایا۔

ایتھوپیائی حقوق انسانی کمیشن (ای ایچ آر سی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ”حملہ آوروں نے سینکڑوں افراد کا قتل کردیا۔ انہیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹا، چاقوؤں اور کلہاڑیوں سے کاٹا اور رسیوں سے گلا گھونٹ دیا۔ انہوں نے لوگوں کے سامان لوٹ لیے اور تباہ کردیے۔"

ای ایچ آر سی نے مزید کہا ہے کہ 'یہ ایتھوپیا میں جاری داخلی تصادم کے دوران اب تک معلوم سب سے بدترین قتل عام ہے اور یہ 'انسانیت کے خلاف جرائم  اور جنگی جرائم‘ کے مترادف ہے۔

Äthiopien | Premierminister | Abiy Ahmed Ali
ایتھوپیائی وزیر اعظم آبے احمد نے ٹی پی ایل ایف کو خودسپردگی کے لیے 72گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا۔تصویر: Michael Tewelde/AFP/Getty Images

زمینی صورت حال کیا ہے؟

گزشتہ برس کے نوبل امن انعام یافتہ ایتھوپیا کے وزیراعظم آبے احمد نے تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) کی جانب سے وفاقی فوج کے کیمپوں پر مبینہ حملہ کے جواب میں فوج، ٹینکوں اور جنگی جہازوں سے تیگرائی کا محاصرہ کرلینے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیے: ایتھوپیا کا بحران: تیگرائی باغیوں نے شہروں پر راکٹ داغ دیے

آبے احمد نے کسی طرح کی ثالثی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال اب فیصلہ کن مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ اتوار کے روز انہوں نے ٹی پی ایل ایف کو خود سپردگی کرنے کے لیے 72 گھنٹے کا وقت دیا تھا لیکن ٹی پی ایل ایف کے رہنما نے اس الٹی میٹم کو ٹھکرادیا اور کہا کہ ان کے عوام اپنی مادر وطن کے لیے 'جان دینے کو تیار‘ ہیں۔

گوکہ ٹی پی ایل ایف اور ایتھوپیا کی وفاقی حکومت کے مابین سن 2018 میں آبے احمد کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں لیکن کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے آبے کی طرف سے اگست میں ہونے والے مجوزہ عام انتخابات کو ملتوی کرنے کے بعد سے کشیدگی میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔

ٹی پی ایل ایف کا الزام ہے کہ وزیر اعظم آبے اپنی مدت کار میں توسیع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ج ا / ع آ (اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید