ایران: احمدی نژاد صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل
12 مئی 2021سابق صدراحمدی نژاد نے اپنے حامیوں کے ساتھ وزارت داخلہ کے دفتر میں جا کر رجسٹریشن فارم پر کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اٹھارہ جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ چونسٹھ سالہ احمدی نژاد سن 2005 سے 2013 تک ایران کے صدر رہے تھے تاہم 2017 میں ہونے والے انتخابات میں انہیں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے واقعے کو تسلیم نہ کرنے والے احمدی نژاد حالیہ برسوں میں اپنی سخت گیر امیج کے بجائے خود کو ایک اعتدال پسند رہنما کے طور پرپیش کرنے کی کوشش اور حکومت کی مبینہ بد انتظامیوں کی نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کی امیدواری کی مخالفت نہیں کریں گے۔ البتہ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینے والی انتخابی کونسل احمدی نژاد کی امیدواری پر اس کے باوجود بھی روک لگا سکتی ہے۔
بہر حال دونوں ہی صورتوں میں عوام میں مقبول احمدی نژاد کے سیاسی منظر نامے میں آمد سے سخت گیر گروپوں کو مزید تقویت ملے گی جو مغرب سے ناراض اور بالخصوص اسرائیل اور امریکا کے خلاف سخت موقف کے حامی ہیں۔
ایران میں آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے رجسٹریشن کا آغاز منگل کے روز ہو گیا۔ یہ انتخابات ایسے وقت ہونے والے ہیں جب عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کا جوہری معاہدہ اب بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے اور تہران کے ساتھ مغرب کی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر حسن روحانی ایرانی آئین کے مطابق صدر کے طور پر ایک مخصوص مدت کی حد کی وجہ سے دوبارہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ حالانکہ انتخابات میں اب صرف ایک ماہ ہی باقی رہ گیا ہے اور کئی امیدواروں کے الیکشن میں حصہ لینے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
لیکن اب تک کسی پسندیدہ امیدوار کا نام سامنے نہیں آ سکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا اور ایران کے خلاف عائد پابندیوں کی وجہ سے لوگوں میں صدارتی انتخابات کے تئیں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
مبصرین کا تاہم کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم رئیسی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں سخت گیر گروپوں کی حمایت ملنے کا کافی امکان ہے۔ متعدد سخت گیر امیدواروں نے کہا ہے کہ اگر رئیسی الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو وہ اپنی اپنی امیدواری سے دست بردار ہو جائیں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے مقرر کردہ چیف جسٹس رئیسی کو ایران کی انتہائی طاقت ور شخصیات میں سے ایک سمجھا جا تا ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حالانکہ امریکی صدر جو بائیڈن جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ملک میں سخت گیر عناصر کے ہی اقتدار پر قابض ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔
اٹھارہ جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں خواہ جس کی بھی فتح ہو اور جو بھی ملک کا صدر منتخب ہو اسلامی جمہوریہ کے نسبتاً اعتدال پسند صدر حسن روحانی چار سالہ صدارت کی اپنی دو مدتیں مکمل کرکے رخصت ہو جائیں گے۔
ابھی یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ آیا ان کے اقتدار میں رہتے ہوئے ایران جوہری معاہدہ دوبارہ بحال ہوسکے گا یا نہیں جس سے سن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کو یک طرفہ طورپر الگ کر لیا تھا۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)