ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ نافذ ہو گئی ہیں، امریکا
20 ستمبر 2020واشنگٹن کے مطابق ایران پر اسلحے کی فروخت کی پابندی مستقل طور پر بڑھ گئی تھی اور یہ کہ امریکا اقوام متحدہ کی ایسی رکن ریاستوں کے خلاف کارروائی کرے گا جو ان پابندیوں پر عمل نہیں کریں گی۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ہفتہ 19 ستمبر کو اعلان کیا کہ ''فی الحقیقت اقوام متحدہ کی ایران کے خلاف تمام تر پابندیاں لوٹ آئی ہیں۔‘‘ پومپیو کے مطابق ان پابندیوں میں ایران پر اسلحے کی فروخت کی مستقل پابندی بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پابندی کے معاملہ پر امریکا اور ایران عالمی عدالت میں آمنے سامنے
مائیک پومپیو نے مزید کہا کہ امریکا مزید اقدامات کا اعلان کرے گا تاکہ ''ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کو مزید مستحکم‘‘ کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک انتہائی دباؤ جاری رہے گا جب تک ایران ''افراتفری، تشدد اور خون خرابہ‘‘ پھیلانے سے باز نہیں آ جاتا۔
امریکی وزیر خارجہ کے مطابق، ''اگر اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں ان پابندیوں کو لاگو کرنے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو امریکا ان کے خلاف اپنے داخلی نظام کے ذریعے نتائج لاگو کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایران اقوام متحدہ کی طرف سے پابندی شدہ اقدامات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔‘‘
امریکی فیصلے کے خلاف اپوزیشن
پومپیو کا یہ بیان ایرانی وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عالمی برادری کو امریکا کی طرف سے بطور 'غنڈا‘ پابندیوں کے ذریعے اپنی خواہش لاگو کرنے کی مخالفت کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: ایران کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ، امریکا کی ’تاریخی سفارتی ناکامی‘
جمعہ 18 سمتبر کو جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے کہا تھا کہ ایران کے لیے اقوام متحدہ کی پابندیوں میں نرمی کا سلسلہ 20 ستمبر کےبعد بھی جاری رہے گا۔ امریکا کی طرف سے ان پابندیوں کو دوبارہ لاگو کرنے کے لیے امریکا کی طرف سے اسی تاریخ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے میں شامل ان تینوں یورپی ریاستوں کے مطابق ایران کے خلاف پابندیوں کی بحالی ''قانونی اثرات سے عاری‘‘ ہو گی۔
ماسکو حکومت نے پابندیوں کی بحالی کے اس یکطرفہ امریکی اعلان کو قانونی اختیار سے عاری قرار دیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی طرف سے آج اتوار 20 ستمبر کو جاری کردہ بیان کے مطابق، ''امریکا کی ناجائز پیش قدمیاں اور اقدامات، تعریف کی رُو سے دیگر ممالک کے لیے بین الاقوامی قانونی نتائج کے حامل نہیں ہو سکتے۔‘‘
ا ب ا / ع آ (اے پی، اے ایف پی)