’ایران اور شمالی کوریا میزائل ٹیکنالوجی کی تجارت میں مصروف‘
15 مئی 2011ہفتے کے روز سامنے آنے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک تیسرے ملک کے ذریعے ممنوعہ ٹیکنالوجی کی منتقلی میں مگن ہیں۔ خبر رساں ادارے کے مطابق متعدد سفارتکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تیسرا ملک چین ہے۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک ٹیم کی طرف سے مرتب کی گئی ہے جبکہ اسے سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد اقوام متحدہ کی طرف سے پیونگ یانگ حکومت کے خلاف عائد کردہ سخت ترین پابندیوں کا معائنہ تھا۔ واضح رہے کہ سن 2006ء اور سن 2009ء میں جوہری دھماکے کرنے پر اقوام متحدہ کی طرف سے شمالی کوریا کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں میں شمالی کوریا کو جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی کی منتقلی سے بھی روکا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کی متعدد کمپنیوں کے اثاثے منجمد کر کے عالمی سطح پر ان کے ساتھ کسی بھی طرح کے کاروباری روابط پر بھی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق : ’’ممنوعہ بلیسٹک میزائلوں سے متعلقہ متعدد چیزیں مبینہ طور پر عوامی جمہوریہ کوریا (شمالی کوریا) اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان منتقل ہو رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایئر کوریو اور ایران ایئر کی عام پروازوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میزائلوں اور ہتھیاروں سے متعلق ایسے پرزے، جو کسی طرح سے ظاہر یا شناخت ہو سکتے ہوں، ایسے پرزوں کی منتقلی کے لیے شمالی کوریا چارٹرڈ جہازوں کا استعمال کرتا ہے۔
چین اس رپورٹ پر نہایت ناخوش ہے۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق سلامتی کونسل میں چین اس رپورٹ کی سخت مخالفت کرے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی شمالی کوریا اور سوڈان کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹوں کو چین کی مخالفت کی وجہ سے جاری نہیں کیا جا سکا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امتیاز احمد