1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور عالمی طاقتوں کے جوہری مذاکرات کا نیا دور منگل سے

7 فروری 2022

ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین تہران کے ساتھ تعطل کے شکار جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کا نیا دور منگل آٹھ فروری کو ویانا میں شروع ہو گا۔ یہ اعلان ان مذاکرات کی قیادت کرنے والی یورپی یونین کی طرف سے کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/46ddA
تصویر: Michael Gruber/Getty Images

آسٹریا کے دارالحکومت  ویانا میں چند ہفتے قبل شروع ہونے والی اس بات چیت کا گزشتہ دور ایک ہفتے سے کچھ ہی عرصہ قبل اس لیے ملتوی کر دیا گیا تھا کہ اس بات چیت میں شریک سفارت کار واپس اپنے اپنے ممالک جا کر متعلقہ حکومتوں سے مشاورت کر سکیں۔

امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان ایران پر بات چیت

ویانا میں ان مذاکرات کی سربراہی یورپی یونین کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ یورپی یونین نے آج پیر سات فروری کو روز اعلان کیا کہ تہران اور عالمی طاقتوں کے مابین اس بات چیت کا اگلا دور کل منگل سے شروع ہو جائے گا۔

امریکا نے ایران کے سول جوہری پروگرام پر عائد پابندیاں اٹھا لیں

اس بات چیت کا مقصد امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کو بحال کرنا ہے، جو ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق ہے۔ اس معاہدے کے تحت تہران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرتے ہوئے صرف سول مقاصد تک محدود رکھنے کا عہد کیا تھا اور جواب میں ایران کے خلاف عائد پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔

ماکروں - رئیسی بات چیت: ’ایرانی جوہری مذاکرات میں تیزی کی ضرورت ہے‘

باراک اوباما کے پس رو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے البتہ 2018ء میں یک طرفہ طور ہر امریکا کے اس معاہدے سے اخراج کا اعلان کر دیا تھا اور ایران پر ایک بار پھر پابندیاں لگا دی تھیں۔ اس کے بعد سے ایران نے بھی اس معاہدے کے تحت خود پر عائد ہونے والی شرائط کی خلاف ورزی کرنا شروع کر دی تھی اور اپنی جوہری تنصیبات میں معاہدے میں طے شدہ سے کہیں زیادہ حد تک یورینیم کی افزودگی شروع کر دی تھی۔

بائیڈن جوہری معاہدے کی بحالی کے خواہش مند

ڈونلڈ ٹرمپ کے پس رو امریکی صدر جو بائیڈن متعدد مرتبہ یہ اشارے دے چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی چاہتے ہیں۔ ویانا میں مذاکرات اسی مقصد کے حصول کے لیے کیے جا رہے ہیں۔

ایرانی ریاستی ٹیلی وژن ہیک، ’خامنہ ای مردہ باد‘ کے نعرے

امریکا کے برعکس ایران کے ساتھ اس معاہدے میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین اب تک شامل ہیں اور ان کی بھی مسلسل یہی کوشش رہی ہے کہ اس معاہدے کو کسی طرح مکمل ناکامی سے بچایا جائے۔

اسی دوران ایران کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب رابرٹ مَیلے نے کہا ہے کہ وہ ان مذاکرات کے اگلے دور کے لیے تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی امید کے ساتھ ویانا لوٹیں گے۔ مَیلے کے مطابق انہیں امید ہے کہ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی مذاکرات کے ذریعے بحالی ممکن ہے۔

مذاکرات آخری مرحلے میں، روسی مندوب

ویانا میں ان کثیرالفریقی مذاکرات میں شامل روسی مندوب میخائل اُولیانوف نے ٹوئٹر پر پیر کے روز اپنے ایک پیغام میں لکھا، ''یہ مذاکرات اس وقت بظاہر اپنے آخری مرحلے میں ہیں، جس میں تمام شرکاء کی طرف سے مشترکہ منزل تک پہنچنے کے لیے پختہ ارادے اور توانائی سے بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے۔‘‘

'امریکی قیدیوں کی رہائی کے بغیر ایران جوہری معاہدہ مشکل'

اس مکالمت میں شامل تینوں مغربی یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے مندوبین نے ایک ماہ تک جاری رہنے کے بعد 28 جنوری کو ملتوی کیے جانے والے ان مذاکرات کے بارے میں اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ بات چیت اب اپنے آخری مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے اور اب ضرورت سیاسی فیصلوں کی ہے۔

امریکی پابندیوں کا خاتمہ خوش آئند

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جمعہ چار فروری کے روز تہران کے خلاف کئی ایسی امریکی پابندیوں کے خاتمے کی دستاویز پر دستخط کر دیے تھے، جن کا تعلق ایران کی طرف سے جوہری توانائی کے سول مقاصد کے لیے استعمال سے تھا۔

ایرانی جوہری مذاکرات: مشکل آغاز کے بعد اب بہتر فضا میں

بائیڈن انتظامیہ کے اس اقدام سے ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ایران پر لگائی گئی پابندیاں منسوخ ہو گئی تھیں۔ اس پر اپنے ردعمل میں ایرانی وزیر خارجہ نے اس فیصلے کا خیر مقدم تو کیا تھا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ واشنگٹن کا یہ اقدام کافی نہیں۔

م م / ک م (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)