ایران اور لبنان میں سی آئی اے کے ایجنٹ گرفتار، امریکی حکام کا اعتراف
22 نومبر 2011بعض سابق امریکی عہدیداروں نے کہا ہے کہ سی آئی اے کے لیے جاسوسی کرنے والے افراد امریکی شہریوں کی بجائے مقامی بھرتی کیے ہوئے افراد تھے اور وہ لاپرواہی کے باعث آشکار ہو گئے۔ سی آئی اے کے سابق آپریشنز افسر اور جاسوسی کی خفیہ دنیا سے متعلق کئی کتابوں کے مصنف بوب بائر کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کی انٹیلی جنس کا توڑ کرنے والی صلاحیتیں انتہائی اعلٰی درجے کی ہیں اور ان کا غلط تخمینہ نہیں لگانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’حزب اللہ کی سکیورٹی اتنی ہی بہترین ہے، جتنی دنیا میں کسی کی ہو سکتی ہے۔ یہ سابق سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی سے بھی بہتر ہے۔‘‘
لبنان کی 1990-1975 کی خانہ جنگی کے دوران ایرانی مدد سے قائم ہونے والی حزب اللہ ملک کی انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی فورس بن چکی ہے اور رواں برس جون میں قائم ہونے والی حکومت میں اس کے اتحادیوں کا غلبہ ہے۔ امریکہ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
اگرچہ امریکی حکام نے سی آئی اے کے دونوں ملکوں میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں مگر ان کا یہ کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس کو پہنچنے والا نقصان اتنا سنگین ضرور ہے کہ اس کے بارے میں کانگریس کی نگرانی کی کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے ہیں۔
حزب اللہ اور ایران دونوں ہی امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں اور وائٹ ہاؤس کے لیے دلچسپی کے اہم اہداف ہیں۔ سی آئی اے نے حالیہ پیشرفتوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم امریکی حکام نے لاس اینجلیس ٹائمز میں شائع ہونے والی اس خبر کی تردید کی ہے کہ حزب اللہ کی کارروائی کی وجہ سے لبنان میں سی آئی اے کی کارروائیوں کو سخت دھچکا لگا ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جاسوسی ایک خطرناک میدان ہے۔ اپنے حریفوں کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کوششیں کرنا، جب وہ اپنے درمیان جاسوسوں کا کھوج لگانے کی بھی کوششیں کر رہے ہوں خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔
رواں سال کے اوائل میں حزب اللہ اور ایران دونوں نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ان کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس کا توڑ کرنے والی فورسز نے سی آئی اے کے مخبروں کا کھوج لگانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جون میں حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ ان کی تنظیم کے دو اراکین کو سی آئی اے کے ساتھ تعلق کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ ایک تیسرا شخص یورپی یا اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ مئی میں ایران کے انٹیلی جنس وزیر نے بھی دعوٰی کیا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کے دو درجن سے زائد جاسوسوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
سابق امریکی اہلکار کے بقول حزب اللہ مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم کے ملکوں میں امریکی سفارت خانوں میں بھی مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے جاسوسوں کو داخل کرتی ہے تاکہ امریکی اہداف پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے میں آسانی ہو۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ