ایران جمشید شارمھد کی سزائے موت فوری ختم کرے، یورپی یونین
29 اپریل 2023یورپی یونین نے ایرانی سپریم کورٹ کی طرف سے ایک ایرانی نژاد جرمن شہری جمشید شارمھد کی سزائے موت برقرار رکھنےکے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ یورپی یونین کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ایران اس سزائے موت پر عمل درآمد سے گریز کرنا اور سزا کو کالعدم قرار دینا چاہیے۔ ایرانی حکام شارمھد کو 2008 میں ایران میں ہونے والے ایک دہشت گردانہ حملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
ایران میں جاسوسی کے الزامات پر گرفتار مغربی شہری کون ہیں؟
انہیں پہلی بار ایرانی عدلیہ نے رواں برس فروری میں موت کی سز ا سنائی تھی۔ اب ایرانی سپریم کورٹ نے اس سزا کو براقرار رکھا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس سزا پر عملدرآمد کب کیا جائےگا۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کے دفتر سے جمعے کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں تہران حکومت سے مطالبہ کیا گیا،''مسٹر شارمھد کی سزائے موت پر عمل درآمد سے باز رہا جائے۔ ان کی سزا کو منسوخ کر کے انہیں بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے، جس کے وہ بین الاقوامی قانون کے تحت بلا تاخیر حق دار ہیں۔‘‘
جمشید شارمھد کی بیٹی گزیل شارمھد نے اس ہفتے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے اڑسٹھ سالہ بوڑھے والدکے پاس "کوئی وکیل نہیں اور انہیں پارکنسنز کے مرض کے لیے درکار دوائیوں تک بھی رسائی نہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا وہ برسوں سے اپنے والد سے بات نہیں کر سکیں۔
شارمھد سن دو ہزار بیس سے ایران میں پابند سلاسل ہیں۔ ان کے خاندان کے افراد، انسانی حقوق کے کارکنوں اور جرمن سیاست دانوں نے ان کے خلاف مقدمے پر تنقید کی اور ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
یورپی یونین نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ''سزائے موت کے خاتمے کے لیے مستقل پالیسی اپنائے اور خاص طور پر غیرملکی قیدیوں کو قونصلر تک رسائی دینے سے سے متعلق ویانا کنونشن کے تحت اپنی بین ان الاقوامی ذمہ داریوں کی سختی سے پابندی کرے، جن کا ایران ایک فریق ہے۔‘‘
یورپی یونین نے''ایران میں یکطرفہ طور پر حراست میں لیے گئے یورپی یونین کے شہریوں اور دوہری شہریت کے افراد کی صورتحال پر اپنی گہری تشویش کا اعادہ کیا۔‘‘
'شار مھد کو اغوا کیا گیا‘
جمشید شارمھد کے بچپن میں ہی ان کا خاندان ایران سے جرمنی چلا گیا تھا۔ اب ان کے پاس جرمن پاسپورٹ ہے۔ تاہم تہران میں پیدا ہونے کی وجہ سے وہ ایک ایرانی شہری بھی ہیں۔ شارمھد اپنی گرفتاری سے قبل برسوں تک امریکہ میں مقیم تھے۔ ان کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ انہیں دبئی میں ایک اسٹاپ اوور کے دوران ایرانی انٹیلی جنس اہلکاروں نے اغوا کیا تھا، جہاں ان کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
امریکہ میں وہ بادشاہت کے حامی حزب اختلاف کےایک جلاوطن گروپ توندر سے منسلک تھے، جو ایران کی موجودہ قدامت پسند حکومت کا تختہ الٹنا اور ایرانی بادشاہت بحال کرنا چاہتا ہے۔
ایرانی عدلیہ نے 2008 میں شیراز شہرکی ایک مسجد میں ہونے والے حملے کا ذمہ دار اس گروپ کو ٹھہرایا تھا۔ اس واقعے میں 14 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ایران نے توندر کو ایک ''دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دے رکھا ہے۔
ش ر ⁄ ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)