ایران سے متعلق اوباما کا موقف اور لہجہ، دونوں سخت
26 ستمبر 2009امریکی صدر باراک اوباما نے ایران پر زور دیا ہے کہ اسے یکم اکتوبر کو اپنے متنازعہ جوہری پروگرام سے متعلق مجوزہ مذاکرات میں’’شفافیت کے ساتھ تمام معلومات فراہم کردینی چاہییں‘‘ جبکہ روس اور چین نے بھی تہران حکومت سے تعاون کرنے کی اپیل کی ہے۔ دوسری جانب ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مغربی ممالک کے تمام خدشات کو ایک بار پھر ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیا ہے۔
باراک اوباما نے ریاست پینسلوینیا کے شہر پٹسبرگ میں جی ٹوئنٹی کے دو روزہ سمٹ کے آخری روز ایران کے حوالے سے اپنے موقف میں پہلی بار سختی کا برملا مظاہرہ کیا۔ اوباما نے تہران کے خلاف فوجی کارروائی کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا تاہم ساتھ ہی کہا کہ سفارت کاری کے عمل کو ہی ترجیح دی جائے گی۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ جوہری عدم پھیلاوٴ کے حوالے سے عالمی طاقتیں آج اتنی متحد ہیں جتنی پہلے کبھی نہیں تھیں۔ اوباما نے واضح طور پر کہا کہ ’’جوہری پروگرام پرُ امن ہونے سے متلعق ایران کے قول و فعل یعنی لفظوں اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔‘‘
ادھر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے نیو یارک میں ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی نیوز کانفرنس میں اس امید کا اظہار کیا کہ یکم اکتوبر کو ہونے والے مذاکرات میں ضرور پیش رفت ہوگی اور ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کے خدشات دور ہوجائیں گے۔
اپنے ملک میں دوسرے جوہری افزودگی کے پلانٹ کے انکشاف کے حوالے سے ایرانی صدر نے کہا کہ تہران حکومت نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ محمود احمدی نژاد نے کہا کہ تہران حکومت نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی IAEA کو اٹھارہ ماہ قبل ہی اپنے نئے جوہری پلانٹ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ احمدی نژاد نے کہا کہ ان کی حکومت بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو نئے جوہری پلانٹ کا جائزہ لینے کی اجازت دینے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی۔
ایرانی صدر نے زور دے کر کہا کہ اس کا جوہری پروگرام ’’ہر لحاظ سے پرامن ہے۔‘‘ احمدی نژاد نے امریکی صدر کی طرف سے ظاہر کئے جانے والے خدشات کے بارے میں کہا: ’’امریکی صدر باراک اوباما کوئی جوہری ماہر نہیں ہیں۔ ایران کے ایٹمی پروگرام پر ماہرانہ رائے دینے کا حق صرف IAEA کو حاصل ہے۔‘‘
اس سے قبل برطانوی وزیر اعظم گورڈن براوٴن اور فرانسیسی صدر نکولا سرکوزی نے پٹسبرگ میں ایران کے دوسرے ایٹمی پلانٹ کے حوالے سے زبردست خدشات ظاہر کئے اور کہا کہ ’’ایران عالمی برادری کو دھوکہ دے رہا ہے۔‘‘
امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسی عالمی طاقتیں ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے تہران حکومت پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کے حق میں ہیں جبکہ اس بار روس اور چین بھی ایران پر پابندیاں لگانے کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں۔
چین نے تہران پر زور دیا کہ اسے ایٹمی توانائی ایجنسی کی طرف سے اپنے نئے جوہری پلانٹ کی ممکنہ تفتیش میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنی چاہییں جبکہ روسی صدر میدویدیف نے کہا کہ تہران کو اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔
یکم اکتوبر کے مذاکرات میں ایران کی نمائندگی اعلیٰ مذاکرات کار سعید جلیلی کریں گے۔ ان مذاکارت کی ناکامی کی صورت میں ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد ہونے کی توقعات ہیں۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: عابد حسین