ایران سےجوہری مذاکرات شروع، بڑی پیش رفت کی توقع کم
21 جنوری 2011ترک شہر استنبول میں شروع ہونے والی اس دو روزہ بات چیت کے موقع تہران حکام نے اس موقع پر مطالبہ کیا ہے کہ ایران پرعائد پابندیاں ختم کی جائیں۔
ترکی کی ثالثی میں ہونے والی اس بات چیت میں ایرانی وفد کی قیادت جوہری مذاکرات کاری کے سربراہ سعید جلیلی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے مشترکہ وفد کی قیادت یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن کر رہی ہیں۔ آج سے شروع ہونے والی بات چیت میں کیا کچھ ہونے والا ہے؟ اس کا اشارہ کیتھرین ایشٹن دے چکی ہیں۔’’ایران اور ہم اس بات پر متفق ہیں کہ بات چیت کا سلسلہ جنوری کے اختتام تک جاری رہے گا۔ اس دوران جوہری پروگرام کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات پر غور کیا جائے گا کہ کس طرح اس سلسلے میں عملی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں اور مشترکہ طور پر پیش رفت کس طرح ممکن ہے۔‘‘
مغربی دنیا کو خطرہ ہے کہ ایران یورینیم کو افزودہ کر کے ایٹم بم تیار کرنا چاہتا ہے جبکہ تہران یہ خدشہ ہمیشہ رد کرتا آیا ہے۔ یہ اجلاس استنبول میں اس لیے منعقد کیا جا رہا ہے کہ ترکی ایسا چاہتا تھا۔ مغربی دفاعی اتحاد کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ترکی کے ایران کے ساتھ تعلقات بھی بڑے ہموار ہیں۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد ملک میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اقتصادی صورتحال میں بہتری لانا ہو گی۔ تاہم اس وقت یہ ممکن نہیں۔ مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ امریکہ میں تو یہ مطالبہ اور بھی زور پکڑتا جا رہا ہے کہ تہران پر لاگو کی جانے والی ان پابندیوں کو مزید سخت کیا جائے۔ اس حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اقتصادی پابندیوں کا فائدہ اسی وقت ہو گا، جب فوجی کارروائی کو بھی ان کے ساتھ نتھی کیا جائے۔
رولف میوٹسینش کا تعلق جرمن اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور وہ مشرقی وسطیٰ کے خطے کے ماہر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے بقول طویل عرصے سے ایران پر شک ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف بم بنانے کے لیے ہے۔ ’’میرے خیال میں ایران، خود پرکیے جانے والے ان شکوک و شبہات کو صرف اسی صورت میں ختم کر سکتا ہے، جب وہ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے تمام سوالات کا جواب دے۔ اس کے علاوہ جوہری معائنہ کاروں کو بھی اپنی تمام ایٹمی تنصیبات تک رسائی دے۔ ساتھ ہی جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق ایک اضافی معاہدے پر دستخط بھی کرے۔‘‘
امید کی جا رہی ہے کہ ایران اور مغربی ممالک کے مابین اعتماد کاجو فقدان نظر آ رہا ہے، استنبول کا اجلاس اس صورتحال کو بہتر کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ اس سے قبل گزشتہ برس چھ اور سات دسمبر کو جنیوا میں اس سلسلے کا پہلا دور منعقد ہوا تھا۔ استنبول مذاکرات میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے علاوہ ایرانی نمائندے بھی موجود ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک