ایران لیڈروں کے خلاف امریکی مہم میں شدت
22 جولائی 2018امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایران کے اہم حکومتی رہنماؤں کے خلاف جارحانہ مہم شروع کر دی ہے۔ اس مناسبت سے آن لائن ایسے مضامین اور بیانات جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہے اور ان کا مقصد ایران میں پائی جانے والی عوامی بےچینی کو مزید بڑھانا خیال کیا گیا ہے۔
خبر رسساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس آن لائن مہم کا مقصد تہران حکومت پر دباؤ بھی بڑھانا ہے تا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام سے بھی دستبردار ہو جائے۔ اس کے علاوہ خطے میں بھی وہ دیگر ملکوں میں مداخلت کی پالیسی سے اجتناب کرے۔ ایسے الزامات سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں بھی تہران پر عائد کرتی ہیں۔
امریکی حکومت کے موجودہ اور سابق اہلکاروں نے بتایا ہے کہ ایران مخالف مہم کو موجودہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیو جان بولٹن کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مہم رواں برس آٹھ مئی سے زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے، جب اسی تاریخ پر امریکی صدر نے ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی اختیار کی تھی۔
اس امریکی مہم کے تحت وزارت خارجہ نے فارسی زبان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ شروع کر رکھا ہے اور یہ ایک اور ویب سائٹ ’’شیئرامریکا‘‘ کے ساتھ منسلک بھی ہے۔ یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ایک پلیٹ فارم ہے اور اس پر جمہوریت اور جمہوری اقدار کو زیربحث لایا جانا ہے لیکن اس پر تہران حکومت کے خلاف کئی پوسٹس جاری کی جا چکی ہیں۔
اس ویب سائٹ پر جاری ہونے والے کئی مضامین میں ’انسدادِ پُرتشدد انتہاپسندی‘ کا موضوع بھی شامل کیا گیا ہے۔ پومپیو بھی اسی مہم کے تناظر میں ایرانی عوام اور دوسرے ممالک میں مقیم ایرانیوں سے اپیل کر چکے ہیں کہ وہ ایران کی سخت گیر حکومت کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے سلسلے کو تقویت دیتے رہیں۔
اس مناسبت سے وائٹ ہاؤس نے کسی قسم کا تبصرہ اور اس مہم میں وزیر خارجہ پومپیو کے کردار کے حوالے سے بھی کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔
دوسری جانب ایران کے ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے نام مخفی رکھتے ہوئے واضح کیا کہ یہ امریکی مہم بھی ناکامی پر ختم ہو گی۔ امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات سن 1979 میں اسلامی انقلاب کے تناظر میں بننے والی ایرانی حکومت کے بعد سے نہایت کشیدہ ہیں۔