1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: جرمنی کا پرتشدد کریک ڈاؤن کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ

10 اکتوبر 2022

جرمن وزیر خارجہ نے ایران میں مظاہروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق یورپی یونین اس تشدد میں ملوث ایرانی حکام کے اثاثے بھی منجمد کر سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4HyDI
Berlin | Annalena Baerbock trifft pakistanischen Außenminister Zardari
تصویر: Bernd von Jutrczenka/dpa/picture alliance

جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے اتوار کے روز کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ یورپی یونین ان افراد کے داخلے پر پابندی عائد کر دے، جو ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے ذمہ دار ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ نے ملکی اخبار بلڈ ایم سونٹیگ کے ساتھ بات چیت کے دوران ایرانی حکام پر پابندیوں کے بارے میں بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 27 رکنی یورپی یونین کا بلاک ایسے ایرانی حکام کے اثاثے بھی منجمد کر دے گا، جو اس طرح کی پر تشدد کارروائیوں میں ملوث پائے گئے۔  

اینالینا بیئربوک نے ایرانی حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ''جو کوئی بھی خواتین اور لڑکیوں کو سڑکوں پر مارتا ہے، ایسے لوگوں کو اغوا کرتا ہے جو محض آزادی سے زندگی گزارنے کے سوا کچھ نہیں چاہتے... وہ تاریخ کے غلط رخ پر کھڑا ہے۔''

اس سے قبل انہوں نے اپنے ایک اور بیان میں ایرانی قیادت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مظاہرین کے مطالبات پر توجہ دیں کیونکہ وہ صرف اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایرانی حکام نے مظاہروں کے خلاف سخت رد عمل اظہار کیا ہے، جو اب اپنے چوتھے ہفتے میں پہنچ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا اندازہ ہے کہ اب تک سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں  185 افراد ہلاک  ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

 بحران پر ایران کا ہنگامی اجلاس

ایران کے سیاسی رہنماؤں نے اتوار کے روز اس بحران کے حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد سے ایران میں مظاہرے روز بروز زور پکڑتے جا رہے ہیں۔

Solidaritätsprotest in Griechenland nach Tod von Mahsa Amini
مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ کا ایران میں موجود ذرائع یا بیرون ملک مقیم جلاوطن ایرانی باشندوں کی تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکے ان مظاہروں میں اب تک تقریباً 200 تک افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: Sakis Mitrolidis/AFP

ایک 22 سالہ کرد-ایرانی خاتون مہسا امینی کی ستمبر میں پولیس کی حراست میں اس وقت موت ہوگئی تھی، جب ایران کی ''اخلاقی پولیس'' نے صحیح طریقے سے حجاب نہ کرنے کے الزام میں، انہیں حراست میں لیا تھا۔

ان کی موت نے ایران کے شہروں میں بے مثال مظاہروں کو جنم دیا اور خواتین نے حجاب کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اپنے بال کاٹ دیے اور اپنے حجاب جلادیے۔ ایران کے صدارتی دفتر کا کہنا ہے کہ صدر ابراہیم رئیسی، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ نے اتوار کے روز اجلاس میں شرکت کیا۔

ہلاکتوں میں اضافہ

تہران سے اتوار کی صبح ملنے والی رپورٹوں میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا ملک کے مختلف حصوں میں جاری پرتشدد عوامی مظاہروں کے دوران گزشتہ رات ایرانی سکیورٹی فورسز کے مزید دو اہلکار مارے گئے۔

 یوں سرکاری ذرائع کے مطابق بھی ان مظاہروں کے دوران اب تک مارے جانے والے ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد کم از کم 14 ہو گئی ہے۔ ایرانی نیوز ایجنسی فارس  نے 27 ستمبر کے روز بتایا تھا کہ تب تک ان مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 60 ہو چکی تھی۔ اس کے بعد سے ایرانی حکام نے ایسی ہلاکتوں کی کوئی نئی تعداد نہیں بتائی۔

لیکن اس کے برعکس مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ کا ایران میں موجود ذرائع یا بیرون ملک مقیم جلاوطن ایرانی باشندوں کی تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکے ان مظاہروں میں اب تک تقریباً 200 تک افراد مارے جا چکے ہیں۔

سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا نے اتوار کے روز بتایا کہ گزشتہ شب جو مزید دو سکیورٹی اہلکار ان مظاہروں کے دوران مارے گئے، ان میں سے ایک بسیج فورس کا رکن تھا، جو ہفتے کی رات انتقال کر گیا۔

بسیج فورس ایران کی پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والی ایک نیم فوجی ملیشیا ہے۔ خود پاسداران انقلاب کا تعلق بھی ایرانی مسلح افواج سے ہے، اور اس کو ایران فوج کا نظریاتی بازو سمجھا جاتا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے