1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں دو شعراء کو قید اور کوڑوں کی سزا

عابد حسین27 اکتوبر 2015

ایک ایرانی عدالت نے دو شاعروں کو شاعری اور صنفِ مخالف سے ہاتھ ملانے کے جرم پر قید کی سزا اور کوڑے مارنے کا حکم سنایا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ایران میں آزادئ رائے کے حوالے سے حکومتی کریک ڈاؤن پر تشویش ظاہر کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GutJ
فاطمہ اختصاری اور مہدی موسویتصویر: Iran-Emrooz

سزا پانے والوں میں ایک خاتون ڈاکٹر فاطمہ اِختصاری اور دوسرے ایک ٹیچر مہدی موسوی ہیں۔ ماہر اطفال فاطمہ اختصاری کو دسمبر سن 2013 میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں ساڑھے گیارہ برس کی سزا سنائی گئی ہے۔ ادب اور شاعری پڑھانے والے مہدی موسوسی کو نو برس کی قید کا حکم سنایا گیا ہے۔ اِن دونوں کو مجموعی طور پر ننانوے کوڑے بھی مارے جائیں گے۔ اِن دونوں پر مختلف الزامات میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے حکومت مخالف پراپیگنڈے کے علاوہ ریاست کی مقدس علامات و نشانات کی تذلیل کی ہے۔ اِن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ موسوی اور اختصاری مغرب میں مقبول ہیں اور یہی اُن کا جرم ہے۔

اِن سزاؤں کو موجودہ ایرانی صدر حسن روحانی کی اُن کوششوں کے لیے سخت دھچکا قرار دیا گیا ہے، جو وہ اپنے ملک میں جمالیاتی فنون کی حوصلہ افزائی اور مغرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ ایران میں سخت عقیدے کے حامل افراد جو پولیس، عدلیہ اور فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، وہ مغرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایرانی حکام اور ریاستی ذرائع ابلاغ نے دونوں شاعروں کو دی جانے والی سزا پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

Haleh Esfandiari in Iran verhaftet
ایرانی نژاد امریکی شہری ہالہ اسفندیاری سن 2007 میں ایران میں جیل جا چکی ہیںتصویر: USIP

انسانی حقوق کے گروپوں نے ایران میں آزادیء رائے کے حوالے سے جاری حکومتی کریک ڈاؤن پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان گروپوں کے مطابق ایران میں اِس وقت اعتدال پسند حلقے کو سخت عقیدے کی حامل مذہبی اشرافیہ کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ اِسی ماہ کے دوران عالمی شہرت کے ایرانی فلم ساز کیوان کریمی کو چھ برس کی قید اور 223 کوڑے مارنے کا حکم سنایا جا چکا ہے۔ رواں برس جون میں ایک خاتون کارٹونسٹ اَتنا فرقدانی کو متنازعہ کارٹون بنانے پر بارہ برس کی قید سنائی گئی تھی۔ مختلف اندازوں کے مطابق اِس وقت ایرانی جیلوں میں تیس صحافی قید ہیں۔

امریکا میں ادیبوں اور مصنفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پین (PEN) کے فری ایکسپریشن پروگرام کے ڈائریکٹر کیرن ڈوئچ کارلیکر کا کہنا ہے کہ جوہری ڈیل کے بعد ایران میں آزادئ رائے کی صورت حال بہتر ہونے کا جو اندازہ لگایا گیا تھا، اُسے ایرانی عدلیہ پوری قوت سے ناکام بنانے کی کوششوں میں ہے۔ کارلیکر کے مطابق ایران میں ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں کی اشاعت حکومتی سنسر پالیسی کے تحت کی جاتی ہے اور عدلیہ موقع کی تاک میں ہوتی ہے کہ کسی شاعر کے کلام پر قدغن لگانے کے ساتھ ساتھ اُسے سخت سزا بھی دی جا سکے تاکہ دوسرے خبردار رہیں۔