ایران میں ’سب سے بڑا دہشت گردی کا منصوبہ‘ ناکام
20 جون 2016خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سرکاری ٹیلی وژن کے ایک میزبان نے اِس مناسبت سے ایک ایسا بیان پڑھ کر سنایا جو ان کے مطابق ملک کی انٹیلیجنس منسٹری کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات تھیں۔ تاہم اس بارے میں مزید معلومات کے لیے انٹیلیجنس حکام سے فوری رابطہ ممکن نہ ہو پایا۔
سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق انٹیلیجنس حکام کی طرف سے بڑی مقدار میں اسلحہ اور دھماکا خیز مواد قبضے میں لینے کے بعد متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی ’فارس‘ نے ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شامخانی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس منصوبے کے مطابق رمضان کے مہینے میں دہشت گردانہ حملے کیے جانے تھے۔
رپورٹ میں گرفتار شدگان کی شناخت کے حوالے سے تو وضاحت نہیں کی گئی مگر ان کے لیے ’تکفیری‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی اور فارسی میں ایسے مسلمانوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اینے علاوہ دیگر مسلمانوں کے ایمان سے خارج سمجھتے ہیں۔
ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق ایرانی حکام کی طرف سے اکثر سنی دہشت پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے تکفیری کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تاہم مذکورہ دہشت گردانہ منصوبے کے بارے میں یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس کی کڑیاں اسلامک اسٹیٹ یا داعش سے ملتی ہیں۔
داعش عراق اور شام میں سرگرم ہے اور ان ممالک کے کئی علاقوں پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ جبکہ شیعہ اسلام کا مضبوط گڑھ ایران داعش کے خلاف شامی اور عراقی حکومتوں کی مدد کر رہا ہے۔ ایرانی حکام کی طرف سے قبل ازیں ممکنہ دہشت گردانہ حملوں کے خطرے سے خبردار کیا گیا تھا۔ 1979ء میں اسلامی انقلاب کے فوری ردعمل کے بعد سے ایران میں اس طرح کے دہشت گردانہ حملے نہیں دیکھے گئے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی IRNA نے بھی اسی طرح کی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ انٹیلیجنس منسٹری نے دہشت گردی کے حملے کو ناکام بنایا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ حملہ ’وہابی تکفیریوں‘ کی طرف سے تیار کیا گیا تھا۔ وہابی ازم دراصل اسلام کا وہ مسلک ہے جس کی زیادہ تر پیروی سعودی عرب میں کی جاتی ہے۔
مئی میں ایران کے انٹیلیجنس منسٹر محمود علوی نے اعلان کیا تھا کہ حکام نے ایسے 20 دہشت گردانہ گروپوں کا خاتمہ کیا ہے جو ایران بھر میں بم دھماکے کر کے افراتفری پھیلانا چاہتے تھے۔