ایران: مظاہرین پرکریک ڈاؤن کون کر رہا ہے؟
13 اکتوبر 2022ایران میں گزشتہ ماہ ایک نوجوان کُرد خاتون، بائیس سالہ مہسا امینی کی حجاب کی مبینہ خلاف ورزی پر بسیجی فورس کی طرف سے گرفتاری اور زیر حراست اُس کی موت واقع ہونے کے بعد شروع ہونے والے تازہ ترین مظاہروں کے خلاف اس نیم فوجی دستے نے شدید کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ بسیجی فوج یا '' ایران کے سخت اخلاقی ضوابط کی زبردستی پاسداری کروانے والی اخلاقی پولیس‘‘ تمام بڑے شہروں میں تعینات ہے۔ بسیجی فورس کے اہلکار مظاہرین پر حملے کرنے اور انہیں حراست میں لینے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں اسکول کی درجنوں لڑکیوں کو احتجاجی طور پر اسلامی حجاب اتارتے اور بسیجیوں کے خلاف نعرے لگاتے اور شدید غصے کا اظہار کرتے دیکھا گیا۔ ایران میں جاری مظاہروں کی شدت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اس کا اندازہ فی الحال نہیں لگایا جاسکتا لیکن اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ مظاہرین کے مزید احتجاج کے خلاف بسیجی اور دیگر ایرانی فورسز کیا رویہ اختیار کرتی ہیں۔
مظاہرین پر سختی کے جواب میں یورپی یونین ایران پر پابندی عائد کرنے پر متفق
بسیج فورس کا تعارف
بسیج کا لفظی معنی ''عوامی رضا کار‘‘ ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب لانے والے لیڈر آیت اللہ خمینی کی نظر میں بسیج ایک ایسا معاشرتی ادارہ ہے جو بیک وقت متعدد معاشرتی امور کے پہلووں کی نگرانی کرتا ہے۔ امام خمینی بیسج کو محض ایک فوجی تنظیم نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے بقول بسیج ایک مکمل اور جامع ادارے کے طور پر اُسی وقت موثر کردار ادا کرسکتا ہے جب معاشرے کی معاشی، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور عسکری ضروریات کو پورا کر سکے۔ تاہم بسیج کی بنیاد فقہی اور جہادی حکم پر مبنی ہے۔
بسیج کا سرکاری نام ایک ایسی تنظیم ہے جو مظلوموں کی تحریک ہے۔‘‘ اسے آیت اللہ خمینی نے 1979 ء کے اسلامی انقلاب کے بعد قائم کیا تھا۔ اس کا مقصد ایرانی معاشرے کو اسلامی بنانا اور اس کے اندر موجود 'دشمنوں‘‘ کا مقابلہ کرنا تھا۔ 1980ء کی ایران عراق کی تباہ کُن جنگ کے دوران بسیج نے صدام حسین کی فوج کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں بسیج نے بدنام زمانہ ''انسانی لہر‘‘ حملے کیے جس میں صدام حسین کے جنگجو ، جن کی ایک بڑی تعداد نہایت کمزور اور نہتے فوجیوں پر مشتمل تھی، توپ خانوں کی گولہ باری اور بارودی سرنگوں پر دوڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ایران میں کرد اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے شدید
نوے کی دہائی کے اواخر میں طلبا کی بغاوت سے شروع ہونے والی بسیج تحریک نے ایک گھریلو یا داخلہ فورس کا کردار ادا کیا جو آمرانہ ریاست کی حکمران جماعت سے مشابہ ہے۔ یہ ایران کے ریوولوشنری گارڈ یا پاسداران انقلاب کے ما تحت کام کرتی ہے اور ایران کے حالیہ سپریم لیڈر اور رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کی محافظ اور سخت وفادار ہے۔ بسیج نے ایران بھر میں شاخیں قائم کر رکھی ہیں۔ ان کی اپنی طلبا تنظیمیں، تجارتی تنظیمیں اور میڈیکل فیکلٹیز بھی موجود ہیں۔ امریکہ نے بسیج کے زیر اہتمام ن اربوں ڈالر کے کاروباری نیٹ ورکس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ بسیج کا حفاظتی دھڑا مسلح بریگیڈ پر مشتمل ہے۔ اس کی اپنی انسداد فسادات پولیس فورس ہے اور اس کے مخبروں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو اپنے پڑوسی ممالک کی جاسوسی کرتا ہے۔
امریکی ریاست ٹینیسی کی یونیورسٹی سے منسلک ایک ایرانی اسکالر سعید گولکر نے بسیج کے بارے میں ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ ان کے اندازوں کے مطابق بسیج کے کُل اراکین کی تعداد قریب ایک ملین ہے جبکہ اس کی سکیورٹی فورسز میں دسیوں ہزار اہلکار شامل ہیں۔ سعید کے بقول،'' کیونکہ بسیج رضاکار یونیفارم کے بغیر عام ایرانی شہری ہوتے ہیں اس لیے اسلامی جمہوریہ اسے حکومت کے حامیوں کے طور پر پیش کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مظاہروں کا مقابلہ کرنے والوں کے بارے میں کہا،'' ساتھ ہی ان میں سے زیادہ تر افراد کو اسلامی جموریہ ایران کی طرف سے تنخواہیں ملتی ہیں۔‘‘
ایرانی فورسز مظاہرین پر حملے کیوں کرتی ہیں؟
ماہرین کے مطابق بسیج میں بہت سے افراد اس لیے شامل ہوتے ہیں کہ انہیں اس طرح کچھ اقتصادی مواقع مل جاتے ہیں، اس کی رکنیت کیساتھ ان کے لیے یونیورسٹیوں میں داخلے اور پبلک سیکٹر میں ملازمت کے دروازے کُھل جاتے ہیں۔ بسیج میں بھرتی ہونے والوں کو تاہم بہت سخت تربیتی پروگرام میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ انہیں 45 دنوں پر مشتمل فوجی اور نظریاتی ٹریننگ دی جاتی ہے جس میں انہیں سکھایا جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب ناانصافی کے خلاف ایک خدائی جدوجہد ہے جسے ان گنت دشمنوں سے خطرات لاحق ہیں۔ ان میں اسرائیل، امریکہ اور جلا وطن ایرانیوں کے گروپ شامل ہیں، یہاں تک کہ مغربی ثقافت بھی ان کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
ایرانی محقق سعید گُلکر کہتے ہیں،'' اس قسم کی نظریاتی تربیت ان افراد تک پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہے جو ابتدائی طور پر ذاتی مفاد کے لیے بسیج کی رکنیت اختیار کرتے ہیں کیونکہ ایسے عقائد اور نظریات مذکورہ محرکات کو تبدیل کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
ایران میں مظاہروں میں امریکہ اور اسرائیل ملوث، علی خامنہ ای
بسیجیوں کی نظر میں، مسلمان خواتین کے سر کو ڈھانپنے والا اسلامی اسکارف، یا حجاب صنفی اختلاط، زنا اور بدعنوانی کے خلاف ایک مضبوط محافظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق حجاب کو ترک کرنا زوال پذیر مغربی ثقافت کی علامت ہے۔ ایران کے رہنما ملک میں جاری تازہ ترین احتجاج اور مظاہروں کو بدامنی پھیلانے کی غیر ملکی سازش کے حصے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
ک م/ ش ر( اے پی، ای اے پی)