ایران نے ہمارے آئل ٹینکر کا راستہ روکا ہے، برطانیہ
11 جولائی 2019ایرانی فورسز نے بدھ 10 جولائی کو مبینہ طور پر ایک برطانوی تجارتی بحری جہاز کو اس وقت روکنے اور اس کا راستہ تبدیل کرنے کی کوشش کی جب وہ آبنائے ہُرمز میں سے گزر رہا تھا۔ لندن کے مطابق تاہم برطانوی رائل نیوی کے ایک بحری جہاز نے یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔
برطانوی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ''بین الاقوامی قوانین کے برخلاف، تین ایرانی کشتیوں نے تجارتی بحری جہاز برٹش ہیریٹیج کا آبنائے ہُرمز میں راستہ روکنے کی کوشش کی۔‘‘
بیان کے مطابق برطانوی نیول فریگیٹ ایچ ایم ایس مونٹروز کی طرف سے ایرانی کشتیوں کو متنبہ کرنے اور ان کشتیوں اور برطانوی آئل ٹینکر کے درمیان آ جانے کے بعد مذکورہ ایرانی کشتیاں واپس لوٹ گئیں۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''ہمیں اس عمل پر تحفظات ہیں اور ہم ایران سے یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ وہ علاقے میں کشیدگی میں کمی لائے۔‘‘
دوسری طرف ایرانی انقلابی گارڈز نے برطانوی دعوے کو مسترد کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی اس برطانوی الزام کو خطے میں کشیدگی بڑھانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ ظریف کے مطابق، ''بظاہر برطانوی آئل ٹینکر اس علاقے سے گزرا ہے۔ جو کچھ انہوں نے خود ہی کہا ہے یا جو دعوے کیے جا رہے ہیں وہ محض کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش ہے اور اس کی کوئی وقعت نہیں۔‘‘
ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ 10 جولائی کو ہی برطانیہ کو دھمکی دی تھی کہ اسے جبرالٹر کے سمندری علاقے میں ایرانی آئل ٹینکر کو روکے جانے کے نتائج بھگتنا ہوں گے، تاہم انہوں نے ان نتائج کی نوعیت واضح نہیں کی تھی۔
گَریس ون نامی ایرانی آئل ٹینکر کو بحیرہ روم کے راستے ایران سے شام جاتے ہوئے برطانوی پولیس اور کسٹم حکام نے جبرالٹر کے قریب روک لیا تھا۔ برطانوی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ آئل ٹینکر شام کے لیے تیل لے کر جا رہا تھا، جو بین الاقوامی پابندیوں کے سبب غیر قانونی عمل ہے۔ تاہم ایران نے اس برطانوی عمل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ یہ برطانوی اقدام امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے۔
امریکا کی طرف سے ایرانی تیل کی برآمدات کو صفر کی سطح پر لانے کی کوششوں اور اس کے خلاف سخت اقتصادی پابندیوں کے بعد آبنائے ہُرمز کے علاقے میں شدید کشیدگی موجود ہے۔ اسی سمندری علاقے کے قریب قبل ازیں کئی آئل ٹینکرز کو نشانہ بنانے کی کوشش ہو چکی ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے اس کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی تاہم ایران نے اس کی تردید کرتے ہوئے ان واقعات کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
ا ب ا / ک م (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)