ایران: پولیس حراست میں خاتون کی موت کے خلاف مظاہرے جاری
20 ستمبر 2022ایرانی حکام کے ہاتھوں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف دارالحکومت تہران سمیت ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں مسلسل تیسرے دن بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے خلاف بڑی تعداد میں ایرانیوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔
ایران کے کرد علاقے میں پیر کے روز ہونے والے مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پانچ افراد کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ہے۔
اخلاقی پولیس کی حراست میں خاتون کی موت، ایرانی صدر کا تفتیش کا حکم
حکام نے دارالحکومت تہران اور ملک کے کرد علاقوں میں انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ہی، فسادات سے نمٹنے والی خصوصی پولیس کو بھی تعینات کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق فورسز مظاہرین کے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایرانی خواتین کوپہلی بار براہ راست فٹ بال میچ دیکھنے کی اجازت
انٹرنیٹ خدمات کی مانیٹرنگ کرنے والے لندن میں قائم ادارے 'نیٹ بلاکس' نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بندشوں کی وجہ سے، ''مغربی ایرانی صوبے کردستان کے دارالحکومت سنندج میں انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی تقریباً مکمل طور پر متاثر ہوئی۔''
انسانی حقوق کے ایک بین الاقوامی گروپ ہینگاو نے پیر کے روز دعویٰ کیا کہ کرد شہر دیواندارہ میں مظاہروں کے دوران دو افراد مارے گئے۔ تاہم ایرانی حکام نے '' ہلاکتوں کے سوشل میڈیا پر کئے جانے والے بعض دعووں '' کو مسترد کرتے ہوئے صرف یہ کہا کہ گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت
اخلاقیات سے متعلق ایرانی پولیس (ارشاد) نے مہسا امینی کو گزشتہ منگل کے روز اس وقت گرفتار کیا تھا، جب انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا۔ ایران میں لباس سے متعلق ضوابط کے تحت خواتین کو سر ڈھانپنا ضروری ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ دوران حراست امینی گر گئیں اور انہیں اسپتال لے جایا گیا۔ تاہم طبی عملے نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ پولیس نے امینی کے ساتھ زیادتی یا بدسلوکی کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔
لیکن مہساامینی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیماری کی ایسی کوئی علامت نہیں تھی اور جب انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ پوری طرح سے صحت مند تھیں۔ پولیس نے اس حوالے سے کلوز سرکٹ ویڈیو بھی جاری کی ہے، جس میں امینی کو اس وقت گرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب وہ تھانے میں موجود تھیں۔
امینی کے جنازے کے دوران مظاہرے
مہسا امینی ایک کرد ہیں۔ ہفتے کے روز اس وقت بڑے پیمانے مظاہرے شروع ہو گئے جب مغربی ایران میں ان کے آبائی علاقے ساقیز میں انہیں دفن کیا گیا۔ مظاہرین نے کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے اور ڈمپروں کو آگ لگا دی۔ اس پر پولیس نے متعدد گرفتاریاں کیں اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل داغے۔
ادھر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے امینی کے اہل خانہ سے بات چیت کی ہے اور مکمل تحقیقات کا وعدہ کیا۔ اس سلسلے میں عدالتی اور پارلیمانی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں پیر کے روز ایران بھر کی یونیورسٹیوں میں مزید مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین امینی کی موت کی جانچ پر شفافیت برتنے کے ساتھ ہی، اخلاقی پولیس کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پولیس کی یہ یونٹ لباس اور دیگر مذہبی احکامات کو نافذ کرانے کے لیے کام کرتی ہے۔
عموماً عوام اور بالخصوص نوجوان خواتین کے ساتھ، اس کا جو رویہ رہا ہے، اس پر اسے تنقید کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ادھر واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس نے بھی اس حوالے سے جوابدہی کا مطالبہ کرتے ہوئے امینی کی موت کو ''انسانی حقوق کے لیے خوفناک اور سنگین توہین'' قرار دیا ہے۔ واشنگٹن نے مطالبہ کیا کہ ایران، ''خواتین کے خلاف تشدد کا استعمال بند کرے تاکہ وہ اپنی بنیادی آزادیوں کا استعمال کر سکیں۔''
فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی امینی کی موت کا باعث بننے والی گرفتاری اور ان پر تشدد کی مذمت کی ہے۔ اس نے کہا کہ ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ایرانی خاتون کی موت ''انتہائی افسوسناک'' بات ہے۔ اس نے ان کی موت کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے شفاف تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔
سن 1979 میں اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد سے ایران میں قانونی طور پر خواتین کو حجاب پہننا لازمی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)