ایران کے بیلسٹک میزائل کس کس کے لیے خطرہ ہیں؟
1 نومبر 2017ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا یہ تازہ بیان ایرانی حکام کی ماضی کی پالیسی کے برعکس ہے۔ واشنگٹن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سینئر فیلو مائیکل ایلیمن کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ صرف سیاسی فیصلہ ہے۔ لیکن بیان سپریم لیڈر نے دیا ہے تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔‘‘
دو ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے ایرانی بیلسٹک میزائل خطے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے علاوہ امریکی فوجی اڈوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ امریکا اور خطے میں موجود اس کے اتحادیوں کے اسی حوالے سے خدشات ہیں لیکن میزائل پروگرام ایران کے ساتھ ہونے والے سن دو ہزار پندرہ کے جوہری معاہدے میں شامل نہیں تھا۔
تہران میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران ایرانی جنرل محمد علی جعفری کا مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایران کے بیلسٹک میزائلوں کی صلاحیت ’فی الحال کافی ہے۔‘‘ ایران کا میزائل پروگرام پاسداران انقلاب چلا رہے ہیں اور اس حوالے سے وہ صرف سپریم لیڈر خامنہ ای کو ہی جواب دہ ہیں۔
پاسداران انقلاب کے سربراہ کمانڈر محمد علی جعفری کا مزید کہنا تھا، ’’ ایرانی سپریم لیڈر کی پالیسی کے مطابق آج ہمارے میزائلوں کی رینج صرف دو ہزار کلومیٹر ہے لیکن ہم ان کی صلاحیت بڑھانے کے اہل ہیں۔ امریکا اور اس کے مفادات ہمارے اردگرد دو ہزار کلومیٹر کے اندر اندر واقع ہیں۔ ہم کسی بھی حملے کا جواب دینے کے اہل ہیں۔‘‘
تاہم جعفری کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں یقین کہ کبھی امریکا اور ایران کے درمیان کوئی جنگ ہو گی، ’’وہ جانتے ہیں کہ اگر امریکا اور ایران کے مابین جنگ ہوئی تو سب سے زیادہ نقصان امریکا کا ہوگا اور انہیں کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی جنگ کا آغاز نہیں کریں گے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق اپنی تقریر کا رخ امریکا کے خلاف کرتے ہوئے اس اعلیٰ ایرانی کمانڈر نے ایرانی میزائل پروگرام کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات میں کمی لانے کی کوشش کی ہے۔ ایران اپنے بیلسٹک میزائل کی رینج محدود کرتے ہوئے خود کو شمالی کوریا سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے، جس نے اپنے بیلیسٹک میزائلوں کو ذریعے امریکا کو ہدف بنانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا میزائل پروگرام دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین نے ایران کے خلاف سکڈ میزائل برسائے تھے اور اس جنگ کے دوران دس لاکھ افراد مارے گئے تھے۔
ایران نے اپنا میزائل پروگرام چلانے کے لیے شمالی کوریا سے میزائل اور ٹیکنالوجی خریدی تھی۔ شمالی کوریا پر عائد پابندیوں کی وجہ سے اسے کیش میں رقم فراہم کی گئی تھی۔ سینئر فیلو مائیکل ایلیمن کا کہنا تھا، ’’یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ایران اپنے خرم شهر میزائل کو کس طرح اپنے سپریم لیڈر کے بیان کے مطابق بناتا ہے۔ ایران یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہم اس کی رینج میں تو اضافہ نہیں کر رہے لیکن اس پر بڑا وار ہیڈ لگا رہے ہیں۔ اس میں تبدیلی کرنا بہت ہی آسان ہے۔‘‘
دوسری جانب ایران کے قریب موجود امریکی فوجی اڈوں پر انتہائی جدید جنگی طیارے موجود ہیں، جن کا ایران سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس ایسے میزائل شکن دفاعی نظام بھی موجود ہیں، جن سے ایرانی میزائلوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی میزائلوں میں عین اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کی بھی کمی ہے۔
تاہم واشنگٹن میں فاؤنڈیشن فار ڈیفینس آف ڈیموکریسیز سے منسلک تجزیہ کار بیہنام بین تالبلیو کا کہنا ہے، ’’ایران اپنے میزائلوں کو خطے میں دباؤ اور خوف کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ایک محفوظ اسلامی جمہوریہ، جسے کسی قسم کو خوف نہیں، وہ پراکسی جنگوں اور بیرون ملک مہم جوئی میں ملوث ہو گی، جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔‘‘