ایران کے خلاف ممکنہ اسرائیلی حملہ، حقیقی خطرہ یا خالی خولی دھمکیاں
8 دسمبر 2011تاہم خود اسرائیل کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا اسرائیلی قائدین پہلے سے پرآشوب خطے میں امریکہ کی مکمل تائید کے بغیر جنگ چھیڑ سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے خیال میں یہ خطرہ مول لیا جا سکتا ہے۔ نیتن یاہو نے رواں ہفتے ایک تقریر میں اسرائیل کے بانی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین کی تعریف کرتےہوئے کہا تھا کہ انہوں نے ’نتائج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے‘ بھی ایسے فیصلے کیے جو اسرائیلی ریاست کے لیے طویل مدت میں سودمند ثابت ہوئے۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ خود بینجمن نیتن یاہو بھی انہی خطوط پر سوچ رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم 1981ء میں عراق کے جوہری ری ایکٹر اور 2007ء میں شام پر اسی طرح کے حملے کے انداز میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی امید کر سکتے ہیں جب امریکہ کا ردعمل جو ابتدا میں منفی تھا، بعد میں تبدیل ہو گیا تھا۔
اسرائیل میں سابق امریکی سفیر ڈینئل کرٹزر کے خیال میں اوباما انتظامیہ کا اسرائیل کو ایران پر یکطرفہ حملے سے روکنے کا انتباہ اسرائیلی ارادوں میں پانچ فیصد سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور حملے کا فیصلہ نیتن یاہو کی حکومت کے اختیار میں ہے۔
ایران پر حملے کے دیگر خطرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لبنان اور فلسطین میں ایران نواز عسکریت پسند اسرائیل کے ساتھ سرحدی جنگ چھیڑ سکتے ہیں جبکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایران کا اہم عرب اتحادی شام بھی اس جنگ میں کود سکتا ہے۔
واشنگٹن میں سینئر حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے حملہ کرنے کے اشارے مبہم ہیں۔ سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر کارل لیوِن نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ’’میرے خیال میں امریکی انتظامیہ کو یہ علم نہیں ہے کہ اسرائیل کیا کرے گا۔ مجھے اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ خود اسرائیل کو علم ہے کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کے اقدامات کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے رہیں۔‘‘
ادھر عام اسرائیلی بھی اس موضوع پر تقسیم رائے کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ یکم دسمبر کو امریکی تھنک ٹینک بروکنگز کے ایک ذیلی ادارے کے رائے عامہ کے جائزے سے پتہ چلا کہ 43 فیصد اسرائیلی یہودی ایران پر حملے کے حامی ہیں جبکہ 41 فیصد اس کے مخالف ہیں۔
دو ایک کے تناسب سے جواب دینے والوں نے یہ بھی کہا کہ اگر علاقائی تخفیف اسلحہ معاہدے کے تحت اسرائیل کو اس کے جوہری ہتھیاروں سے محروم کر دیا جائے تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ نوے فیصد کی یہ پیش گوئی تھی کہ ایران ایک نہ ایک دن جوہری فوجی قوت بن جائے گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ ایران کی جوابی کارروائی کے صورت میں پانچ سو سے بھی کم اسرائیلی ہلاک ہو سکتے ہیں۔ تاہم اسرائیل کے سابق انٹیلیجنس سربراہ آموس یادلِن کے خیال میں عراق کے اوسیراک جوہری ری ایکٹر پر حملے کے برعکس ایرانی تنصیبات پر حملہ اتنا آسان ثابت نہیں ہو گا کیونکہ ایک تو وہ مختلف جگہوں پر اور ایک دوسرے سے دور واقع ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے حفاظتی انتظامات بھی سخت ہیں۔ علاوہ ازیں ایران کسی بھی ممکنہ حملے کے لیے پوری طرح چوکس ہے۔ آموس یادلِن کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو ایران کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرنے کی بجائے ان اتحادیوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہیے جن کی جنگی صلاحیتیں کہیں زیادہ بہتر ہیں۔
اگرچہ ابھی تک اسرائیل کی جانب سے حملے کی باتوں کو صرف دھمکیاں تصور کیا جا رہا ہے تاہم بعض مبصرین کے نزدیک اس سے غلط اندازے بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔
سن 1973ء میں یہودی تہوار ’یوم کپور‘ کے موقع پر عرب اسرائیلی جنگ سے قبل مصر کے صدر انور سادات نے جنگ کے بارے میں کئی بیانات جاری کیے تھے مگر انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔ تاہم بالآخر انہوں نے جنگ چھیڑ ہی دی۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک