ایران کے دروازے پر ایک نئے انقلاب کی دستک: تبصرہ
15 فروری 2011کیا شمالی افریقہ میں شروع ہونے والی تحریکِ جمہوریت اب ایران کے دروازوں پر بھی دستک دے رہی ہے، اِس بارے میں ڈوئچے ویلے کی فارسی سروس کے جمشید فاروقی اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں: ’’احمدی نژاد اپنے حریفوں سے خوفزدہ ہیں، اِس کا اندازہ اِس بات سے ہوتا ہے کہ مصر کی تحریکِ جمہوریت کے ساتھ یک جہتی کے لیے مجوزہ اجتماع پر ایران میں پابندی عائد کر دی گئی۔ سکیورٹی فورسز نے اپوزیشن قائدین میر حسین موسوی اور مہدی کروبی کے گھر کی ناکہ بندی کر دی، سیٹیلائٹ پروگراموں میں خلل ڈالا گیا اور موبائل فون کے نظاموں کو مفلوج بنا دیا گیا، مختصر یہ کہ مجوزہ مظاہرے کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔
تاہم یہ حربے ناکام رہے اور دھمکیوں اور سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود ہزاروں حکومت مخالفین تہران کی سڑکوں پر نکلے۔ ملک کے دیگر بڑے شہروں سے بھی احتجاجی مظاہروں کی خبریں ملی ہیں۔ پیغام بہت واضح ہے۔ ایران میں مظاہروں کی اِس نئی لہر نے یہ بات واضح اور نمایاں کر دی ہے کہ سیاسی تعاقب اور بے رحمانہ تشدد کے باوجود ’سبز تحریک‘ زندہ ہے۔
ایران میں حالات پر لوگوں کا عدم اطمینان کم از کم اُتنا ہی ہے، جتنا کہ تیونس اور مصر میں۔ وہاں بھی سماجی مسائل کو طاقت اور جبر سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ایران میں پیش آنے والے حالات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مطلق العنان حکمران کوئی سبق سیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ ایرانی صدر احمدی نژاد قاہرہ سے آنے والے پیغام کو اُسی طرح سے نہیں سمجھ پا رہے ہیں، جیسے 32 سال پہلے شاہِ ایران آزادی اور جمہوریت کے لیے پیدا ہونے والی تڑپ کو نہیں سمجھ سکے تھے۔ تیونس کی تحریکِ جمہوریت کے نتیجے میں پورے خطّے میں گویا ایک زلزلہ آ گیا ہے، جس کے جھٹکے پوری عرب دُنیا کے ساتھ ساتھ اب ایران میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
تیونس، تہران اور قاہرہ کے حالات میں بہت فرق بھی ہے لیکن کئی چیزیں مشترک بھی ہیں۔ اِس پورے خطّے میں عوام کی زندگیاں عدم اطمینان سے عبارت ہیں۔ یہ عدم اطمینان صرف مالی مسائل کی وجہ سے نہیں ہے۔ لوگ اپنے اُن بدعنوان حکمرانوں سے تنگ آ چکے ہیں، جو تبدیلی کی ہوا کو محسوس نہیں کر پا رہے ہیں۔
یک نئی نوجوان انٹرنیٹ نسل وجود میں آ چکی ہے، جو دُنیا کی جانب اپنے دِل کُشادہ رکھتی ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے باقی دُنیا سے جُڑی ہوئی ہے۔ یہ نوجوان اپنا موازنہ مغربی صنعتی ممالک کی نوجوان نسل سے کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں اُن کے ہاں بے پناہ توقعات جنم لیتی ہیں۔ مصر، تیونس اور ایران کی نوجوان نسل اپنے لیے ایک باوقار زندگی اور مستقبل کے اچھے امکانات کا مطالبہ کر رہی ہے اور یہ ایسے مطالبات ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔
دیکھا جائے تو ایران کی ’سبز تحریک‘ سے حکمتِ عملی کے حوالے سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ وہ سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلنے کی غرض سے سیاسی اور مذہبی مواقع کا انتظار کرتی رہی ہے، جس سے سکیورٹی فورسز کو ہر بار اگلی احتجاجی لہر کے خلاف تیاریاں کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اِس کے برعکس مصر کے مظاہرین نے احتجاج کا موقع خود پیدا کیا۔
یہ سمجھنا سادگی ہو گی کہ مصر اور تیونس کے عوام نے اپنے اپنے حکمرانوں مبارک اور بن علی کو اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کر کے انقلاب کو مکمل کر دیا ہے اور ملک میں جمہوری فضا تشکیل دے دی ہے۔ ہاں، اُنہوں نے اِس جانب ایک بڑا قدم ضرور اٹھایا ہے۔ ایران کی اپوزیشن تحریک کو اِس سے سبق سیکھنے چاہئیں، تبھی اُسے اپنے ہاں چھائی تاریکی میں اُمید کی کرن نظر آ سکے گی۔‘‘
تبصرہ: جمشید فاروقی/ ترجمہ: امجد علی
ادارت: امتیاز احمد