’ایران کے ساتھیوں‘ پر امریکی پابندیاں
13 دسمبر 2013اس اعلان کے تحت امریکی شہری یا کمپنیاں بلیک لِسٹ کیے جانے والے اداروں یا افراد کے ساتھ کاروبار نہیں کر سکیں گی۔ محکمہ خزانہ کے نائب سیکریٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلیجنس ڈیوڈ کوہن کا کہنا ہے: ’’گو کہ ہم ایران کے جوہری منصوبے کے بارے میں اپنے تحفظات دُور کرنے کے لیے طویل المدتی اور جامع حل کے امکان پر کام کر رہے ہیں، لیکن آج کی کارروائیاں سبھی کاروباری اداروں، بینکوں اور بروکروں کو سختی سے یاد دہانی کرواتی ہیں کہ ہم اپنی پابندیوں کے نفاذ کے لیے بدستور سختی سے پیش آئیں گے۔‘‘
جن کمپنیوں کو بلیک لِسٹ کیا گیا ہے ان میں سنگاپور میں قائم مِڈ آئل ایشیا اور سنگا ٹینکرز بھی شامل ہیں۔ ان دونوں کمپنیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے نیشنل ایرانیئن ٹینکر کمپنی کی طرف سے ایک غیرملکی بینک میں رقوم کی منتقلی کے لیے ایران کی مدد کی۔
یوکرائن کے شہری وتالی سوکولینکو اور ان کی فیرلینڈ کمپنی لمیٹڈ پر بھی الزام ہے کہ اس نے ایران کو تیل کی فروخت میں مدد فراہم کی۔
یہ اعلان ایسے وقت پر کیا گیا جب ایران پر مزید پابندیوں کے لیے زور دینے والے امریکی ارکانِ کانگریس کا رویہ نرم پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو سامنے آنے والے اس اعلان کو تہران حکومت کے لیے ایک واضح انتباہ کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے پر عمل کرے۔
واشنگٹن انتظامیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی جانب سے ایران کے ساتھ معاہدے کے باوجود بعض امریکی ارکانِ کانگریس ایران کے خلاف مزید سخت کارروائیوں کے لیے زور دیے رہے تھے۔ تاہم اب دو ارکان نے نئی پابندیاں متعارف نہ کروانے کے لیے وائٹ ہاؤس کی اپیل منظور کر لی ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ مزید پابندیوں سے عالمی طاقتوں کے درمیان پھُوٹ پڑ سکتی ہے جو ایران کے جوہری پروگرام پر قابو پانا چاہتی ہیں۔
ان ارکان کانگریس میں سے ایک سینیٹ کی بینکنگ کمیٹی کے چیئرمین ٹِم جانسن کا کہنا ہے: ’’میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں سخت پابندیوں کی حمایت کرتا ہوں اور موجودہ امریکی پابندیوں میں سے متعدد میں نے ہی متعارف کروائی تھیں۔‘‘
ٹِم جانسن نے مزید کہا: ’’لیکن میں اس بات پر بھی متفق ہوں کہ سفارتی وقفے کے لیے حکومت کی درخواست معقول ہے۔‘‘
خیال رہے کہ امریکا سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے گزشتہ ماہ جنیوا میں ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت تہران حکومت اپنے جوہری منصوبے کے بعض حصوں کو منجمد کرنے پر تیار ہے۔ اس کے بدلے میں اس کے خلاف پابندیاں نرم کی جائیں گی جس سے اسے سات بلین ڈالر کا فائدہ پہنچے گا۔