ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات بحال، کامیابی کی امید
20 دسمبر 2013خبر رساں ادارے روئٹرز نے یورپی سفارتکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ملکوں اور جرمنی پر مشتمل P5+1 نامی گروپ کے نمائندوں کی ایران کی جوہری مذاکراتی ٹیم کے ارکان کے ساتھ ان مذاکرات میں ایران پر عائد کچھ مالیاتی پابندیوں کو نرم بنانے کے عملی پہلوؤں پر گفتگو کی جائے گی اور دیکھا جائے گا کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام میں شفافیت پیدا کرنے کے لیے کیا کیا کر سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکا کی طرف سے ایران کی مزید انیس کمپنیوں اور اہلکاروں کو بیلک لسٹ کیے جانے کے بعد سے اب ایسے خدشات ہیں کہ شاید ایرانی سفارتکار سخت مؤقف اختیار کر لیں۔
تاہم سفارتکاروں نے بتایا ہے کہ نو تا بارہ دسمبر ویانا میں ہونے والے چار روزہ مذاکرات میں ایرانی اور عالمی سفارتکاروں نےکافی پیشرفت کی ہے۔ آسٹریا میں ہونے والے ان مذاکرات میں دراصل بیلجیم میں ہونے والے مذاکرات کا ایجنڈا طے کرنا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکا کے علاوہ جرمنی اور ایران کے مابین ہونے والے ان دو روزہ مذاکرات میں گفتگو کا محور یہ ہو گا کہ مغربی ممالک ایران پر سے پابندیاں کب اٹھائیں گے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ اسی طرح ان مذاکرات میں ایران تجویز پیش کرے گا کہ وہ اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کو عالمی معائنہ کاروں کی نگرانی میں دینے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گا۔
مغربی سفارتکاروں کے مطابق ان کا ہدف ہے کہ آئندہ برس جنوری کے اواخر تک ایران پر عائد کچھ مالیاتی پابندیاں کو اٹھانے کے لیے حتمی فیصلہ کر لیا جائے۔ متوقع طور پر بیس جنوری کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے دوران اس حوالے سے منظوری دی جا سکتی ہے۔ ایک سفارتکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’ویانا میں ہم نے کافی کام کر لیا ہے۔ اب توقع ہے کہ باقی ماندہ کام جلدی ہی ہو جائے گا۔‘‘
دوسری طرف کچھ مغربی سفارتکاروں کو خدشہ ہے کہ ایران پر تازہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایران کے ساتھ مذاکرات مشکل رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ ایک سفارتکار نے اس تناظر میں کہا، ’’مجھے ڈر ہے کہ اب ایران کا لہجہ سخت ہو سکتا ہے۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ تازہ امریکی پابندیوں کے بعد گزشتہ ہفتے ایرانی حکام کی طرف سخت ردعمل دیکھا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات کا یہ سلسلہ کچھ دنوں کے لیے منقطع بھی ہو گیا تھا۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین گزشتہ ماہ ہونے والی ڈیل کے تحت تہران حکومت نے اتفاق کیا تھا کہ وہ چھ ماہ کے لیے اپنی جوہری سرگرمیوں کو ترک کر دے گا تاکہ اس عرصے کے دوران کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے کوشش کی جا سکے۔
مغربی ممالک کو اندیشہ ہے کہ تہران حکومت اپنے جوہری پروگرام سے ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش میں ہے جبکہ ایران ہمیشہ ہی کہتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے تاہم وہ ابھی تک اس حوالے سے مغربی ممالک کے تحفظات دور نہیں کر سکا ہے۔