ایران کے پاس اسرائیل کو جواب دینے کے طریقے متعدد مگر خطرناک
3 اپریل 2024پیر یکم اپریل کو شامی دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل کے حملے میں دو ایرانی جنرلز اور پانچ فوجی مشیروں کی ہلاکت یہ ثابت کرتی ہے کہ اسرائیل نے ایران اور اس کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری مہم کو تیز کر دیا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دیا جائے گا، ایران
یمنی حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکہ اور برطانیہ کےحملوں کی نئی لہر
تہران کے پاس اس حملے کا جواب دینے کے لیے کئی ایک طریقے یا امکانات موجود ہیں۔ وہ اپنی پراکسیز یا حمایت یافتہ گروپوں کو امریکی افواج کے خلاف استعمال کر سکتا ہے، انہیں اسرائیل پر براہ راست حملہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے یا پھر اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا سکتا ہے، جو طویل عرصے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خدشات کا سبب بنا ہوا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک امریکی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس بات پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے کہ پیر کو کیے گئے اسرائیلی حملے کے بعد ماضی کی طرح ایران کے حمایت یافتہ گروہ عراق اور شام میں تعینات امریکی فوجیوں پر حملے کریں گے یا نہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس فروری میں واشنگٹن نے اردن میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد شام اور عراق میں ایرانی پاسداران انقلاب اور اس کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ٹھکانوں پر درجنوں فضائی حملے کیے تھے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک ایسی انٹیلی جنس معلومات نہیں ملیں کہ ایران کے حمایت یافتہ گروہ پیر کے روز کیے گئے حملے کے بعد امریکی فوجیوں پر کوئی حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
امریکہ نے منگل دو اپریل کو تہران کو دو ٹوک الفاظ میں متنبہ بھی کیا کہ وہ اس کی افواج پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر رابرٹ ووڈ کے مطابق، ''ہم اپنے اہلکاروں کا دفاع کرنے میں کوئی تامل نہیں کریں گے اور ایران اور اس کے آلہ کاروں کو پیشگی متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ امریکی اہلکاروں پر حملے دوبارہ شروع کرنے کے لیے… صورتحال کا فائدہ نہ اٹھائیں۔‘‘
تباہ کن جنگ سے گریز
اس معاملے پر گہری نظر رکھنے والے ایک امریکی اہلکار کے مطابق ایران کو اس الجھن کا سامنا ہے کہ وہ ایک بھرپور جنگ سے گریز کرتے ہوئے اس طرح کے مزید اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے کیا اقدام کرے: ''انہیں اس حقیقی مخمصے کا سامنا ہے کہ اگر وہ جواب دیتے ہیں تو تصادم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو واضح طور پر وہ نہیں چاہتے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''وہ اپنے اقدامات کو اس طرح سے تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جن سے یہ تو ظاہر ہو کہ وہ اس حملے کا جواب دے رہے ہیں، لیکن ایسا نہ لگے کہ وہ صورتحال کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔‘‘
اس ذریعے کا یہ بھی کہنا تھا، ''اگر وہ اس معاملے میں جواب نہیں دیتے، تو یہ واقعی اس بات کا ایک اشارہ ہو گا کہ ان کی مزاحمت یا دفاع ایک کاغذی شیر ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران اسرائیل، اسرائیلی سفارت خانوں یا بیرون ملک یہودی تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے۔
روئٹرز کے ساتھ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات چیت کرنے والے اس امریکی عہدیدار کے مطابق اسرائیلی حملے کی اہمیت کے پیش نظر ایران امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی بجائے اسرائیلی مفادات پر حملہ کر کے اس کا جواب دینے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز میں مشرق وسطیٰ کے معاملات کے ماہر ایلیٹ ابرامز کا بھی یہی کہنا تھا کہ ایران اسرائیل کے ساتھ ایک بھرپور جنگ نہیں چاہتا لیکن وہ اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
ابرامز نے ایران کی سب سے طاقتور فوجی پراکسی، لبنانی گروپ حزب اللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''میرے خیال میں ایران اس وقت اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک بڑی جنگ نہیں چاہتا، لہٰذا کوئی بھی جواب حزب اللہ کی کسی بڑی کارروائی کی شکل میں نہیں آئے گا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا ''ان کے پاس جواب دینے کے بہت سے دیگر طریقے ہیں... مثال کے طور پر کسی اسرائیلی سفارت خانے کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش۔‘‘
ایران اپنے جوہری پروگرام کو مزید تیز کرکے بھی اس حملے کا جواب دے سکتا ہے، جسے 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کے ایرانی جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے بعد دستبرداری کے بعد سے ایران ترقی ہی دیتا آیا ہے۔
لیکن دو سب سے زیادہ اہم اقدامات - یورینیم کی افزودگی کو 90 فیصد تک بڑھانا، جسے بم گریڈ سمجھا جاتا ہے، یا اصل ہتھیار ڈیزائن کرنے کے کام کو بحال کرنا، اسرائیلی یا امریکی حملوں کو دعوت دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم سی ایس آئی ایس تھنک ٹینک میں مشرق وسطیٰ کے پروگرام کے ڈائریکٹر جان آلٹرمین کے مطابق انہیں ایرانی سفارت خانے پر حملے کے ردعمل میں تہران کی جانب سے بڑے پیمانے پر ردعمل کی توقع نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ''ایران اسرائیل کو سبق سکھانے میں کم دلچسپی رکھتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں پر یہ ثابت کرنے میں زیادہ کہ وہ کمزور نہیں ہے۔‘‘
ا ب ا/ک م، م م (روئٹرز)