1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایران یورنیم کی افزودگی کا عمل بحال کر سکتا ہے‘

22 اپریل 2018

ایران نے کہا ہے کہ اگر امریکا عالمی جوہری ڈیل سے دستبردار ہوتا ہے تو تہران حکومت یورنیم کی افزودگی کا عمل ’بھرپور‘ طریقے سے شروع کر دے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ ماہ اس ڈیل سے دستبردار ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2wT3x
Iran Schwerwasserreaktor in Arak
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

خبررساں ادارے اے ایف پی نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا کی طرف سے عالمی جوہری ڈیل سے دستبرداری کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایران جوہری افزودگی کا عمل ’پروزور طریقے‘ سے شروع کر دے گا جبکہ ساتھی ہی دیگر ’سخت اقدامات‘ بھی زیر غور ہیں۔

امریکا کی عالمی جوہری ڈیل سے ممکنہ دستبرداری اور خدشات

ایران خطے میں کسی جارحیت کا ارادہ نہیں رکھتا، صدر رو‌حانی

اتحادیوں سے مل کر ایران ڈیل کو مضبوط بناؤں گا، پومپیو

ظریف نے نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ایران جوہری بم حاصل کرنے کی کوشش میں نہیں ہے لیکن امریکا کی طرف سے جوہری ڈیل سے دستبردار ہونے کے نتیجے میں ان کا ملک یورنیم کی افزودگی کا عمل ضرور شروع کر دے گا۔ واضح رہے کہ افزودہ یورنیم ایٹمی ہتھیاروں کے لیے ایک اہم جزو ہوتی ہے۔

قبل ازیں ایرانی صدر حسن روحانی واضح کر چکے ہیں کہ ایرانی  ایٹمی ادارہ جوہری ڈیل کے حوالے سے تمام تر متوقع یا غیرمتوقع حالات کے لیے تیار ہے۔  ایران دھمکی دے چکا ہے کہ امریکا کی طرف سے اس معاہدے سے الگ ہونے کی صورت میں یہ ڈیل ختم سکتی ہے۔ ہفتہ 21 اپریل کو تہران میں اپنے ایک خطاب میں حسن روحانی نے کہا کہ ایرانی جوہری توانائی کا ادارہ اس حوالے سے مکمل تیاری کیے ہوئے ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی ممالک کو بارہ مئی کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے کہ وہ اس ڈیل میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کریں۔ ٹرمپ کے مطابق یہ ڈیل موجودہ شکل میں امریکی مفادات میں نہیں ہے اور اس کی کچھ شقوں میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں پیر 23 اپریل سے امریکا کا دورہ شروع کر رہے ہیں، جس دوران وہ اپنے امریکی ہم منصب ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں دیگر کئی اہم بین الاقوامی معاملات کے ساتھ ساتھ ایران کی جوہری ڈیل پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ آئندہ ہفتے سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی امریکا کا دورہ کر رہی ہے۔

ان دونوں یورپی رہنماؤں کے  امریکا کے دورے ،ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین سن دو ہزار پندرہ میں طے پائی جانے والی جوہری ڈیل کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیے جا رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ اگر امریکا عالمی سطح پر اپنی ساکھ برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے اس معاہدے پر عمل پیرا رہنا ہو گا۔ انہوں نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ پر زور دیں کہ وہ اس ڈیل کا احترام کریں نہ کہ ایران سے ’زیادہ مطالبات‘ کیے جائیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اس ڈیل کے تناظر میں یورپی ممالک امریکا کو زیادہ رعایات نہ دیں۔ انہوں نے دہرایا کہ اگر امریکا اس ڈیل سے الگ ہوتا ہے تو ایسا لازمی نہیں کہ ایران اس ڈیل کے دیگر فریقین (برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس) کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ ظریف کے بقول اس ڈیل کے تحت ایرانی مفادات محفوظ رہنے چاہییں ورنہ دوسری صورت میں ایران یک طرفہ اس ڈیل پر کاربند نہیں رہ سکے گا۔

اس عالمی ڈیل کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کیا ہے جبکہ ایران پر عائد پابندی کو نرم یا ختم کیا جا چکا ہے۔ ناقدین کے مطابق اگر ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والی یہ عالمی جوہری ڈیل ختم ہو جاتی ہے، تو اس کے نتیجے میں ایرانی جوہری پروگرام کی نگرانی کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ یوں خطرات ہیں کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں میں اضافہ کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیار سازی بھی کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں یورپی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

 

ع ب / ا ع / خبر رساں ادارے