ایرانی افغان پانی کا تنازعہ: طالبان و ایران کے تعلقات اہم
9 ستمبر 2021افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے والے عسکریت پسند طالبان نے اپنی عبوری حکومت کو تشکیل دے دیا ہے۔ اس حکومت کو ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر خطوط پر استور کرنے کی فوری ضرورت بھی خیال کی جا رہی ہے۔ طالبان کی حکومت کی کامیابی کا دار و مدار ہمسایہ ملکوں سے روابط پر بھی خیال کیا جاتا ہے۔
لاکھوں افغان شہری بھوک کے خطرے سے دوچار
ایران بھی افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں شامل ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سےایک دریا کے پانی کی تقسیم کا ایک تنازعہ موجود ہے۔ علاقائی مبصرین کا خیال ہے کہ اس تنازعہ کا پرامن حل تہران اور طالبان کے مستقبل کے تعلقات کی اساس ہو گا۔
پانی کا تنازعہ اور کلائمیٹ چینج
امریکی دارالحکومت میں مقیم ایک ایرانی ماہر نیک کوثر کا خیال ہے کہ ایران اور افغان سرحد کی صورت حال میں بہتری طالبان کے اقتدار میں آنے سے بہتر نہیں ہو گی کیونکہ اس علاقے میں غربت، پانی کی کمیابی اور قحط نے عام لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا تھا اور ابھی بھی یہی صورت حال پیدا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں میں یہ صورت حال ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ کوثر کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان پیدا پانی کی تقسیم کا تنازعہ جو کلائیمیٹ چینج کا بظاہر نتیجہ ہے، اس کی آڑ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔
ایران: پانی اور بجلی کی قلت کے خلاف مظاہروں میں شدت
ایران اور افغانستان کا دیرینہ تنازعہ
ایران اور افغانستان کے درمیان پانی کا تنازعہ کوئی کل کی بات نہیں بلکہ ایک صدی سے زائد پرانا ہے۔ یہ تنازعہ دریائے ہلمند کے پانی کی تقسیم کا ہے۔ یہ دریا کابل کے قریب کوہِ ہندوکش کے ایک مقام سے نکل کر افغانستان کے کئی شہروں میں سے گزرتا ہے۔ یہ اس ملک کا سب سے بڑا دریا بھی ہے اور گیارہ سو کلو میٹر بہتا ہوا ایک جھیل ہامون میں جا کر گرتا ہے۔
جھیل ہامون یوں تو ان دونوں ملکوں کی سرحد پر ہے لیکن یہ قریب ساری کی ساری ایران میں واقع ہے۔ یہ ایران کی تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ زیادہ تر دریائے ہلمند کے پانی پر انحصار کرتی ہے۔ اس کا علاقے کے ماحول اور معیشت پر گہرا اثر ہے۔
افغان سرحد پر ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان واقع ہے۔ اس کو غریب ترین ایرانی صوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ سیستان بلوچستان کو پانی کی شدید کمیابی کا سامنا ہے۔ ایرانی پارلیمنٹ کے مطابق ان حالات کی وجہ سے اس صوبے کی پچیس سے تیس فیصد آبادی نقل مکانی کر چکی ہے۔ پانی کی کمیابی گزشتہ بیس تیس سالوں میں گھمبیر ہو چکی ہے۔
پانی کا تنازعہ اور طالبان
ایرانی حکومت مسلسل افغان حکمرانوں پر یہ الزام عائد کرتی آئی ہے کہ وہ اس کے پانی کے حق کا احترام کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں، جو سن 1973 کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس معاہدے کا تعلق اس پانی سے ہے جو افغانستان سے بہتا ہوا ایران میں داخل ہوتا ہے۔
سمندر میں ڈوبنے سے بچے تو دریا میں ڈوب گئے
دوسری جانب سابقہ افغان حکومت نے ایرانی سرحد کے نزدیک دریائے ہلمند پر ایک بڑا ڈیم بھی تعمیر کر دیا ہے۔ کمال داد خان ڈیم کئی برسوں کے تعمیراتی تعطل کے بعد اب مکمل ہو گیا ہے۔ اس ڈیم کے حوالے سے تہران کا موقف ہے کہ یہ دریائے ہلمند کے پانی میں مزید کمی لائے گا اور جھیل ہامون کی سطح اور نیچے چلی جائے گی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے ہلمند دریا سے ماضی کے مقابلے میں زیدہ پانی جھیل کے لیے چھوڑا جا رہا ہے۔ یہ اضافی پانی طالبان کے ایما پر ہی چھوڑنے کا بھی بتایا گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ اہم ہے کہ آیا طالبان کا یہ اقدام کم مدتی ہے یا کچھ عرصے بعد اس اضافی پانی کو روک دیا جائے گا۔
دو طرفہ تعاون کی امید
فروری سن 2021 میں کابل اور تہران کی حکومتوں نے دریائے ہلمند کے پانی کی تقسیم کے ایک نظام الاوقات کو حتمی شکل دی تھی۔ اس پلان کے تحت ایک ہائیڈرو میٹر کی تنصیب ہے جو یہ واضح کرے گا کہ کتنا پانی ایرانی جھیل میں گیا ہے۔
کمال داد خان ڈیم کی تعمیر کا مقصد افغانستان کے نیمروز صوبے کی قحط سالی کو ختم کرنا ہے۔ مستقبل میں یہ بھی اہم ہو گا کہ طالبان کس انداز میں پانی کا استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں کمال داد خان ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی ایران کو بھی ایکسپورٹ کی جاتی رہی ہے لیکن اب نمروز صوبے کی بجلی کی طلب بھی بڑھ چکی ہے۔
شبنم فون ہائین (ع ح/ع ت)