1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے تین ہزار پاؤنڈ وزنی بم موجود ہے، امریکا

9 مارچ 2012

امریکی ایئر فورس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف فار آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل ہربرٹ کارلائل نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی فوج نے ایک تین ہزار پاؤنڈ وزنی ’بنکر بسٹر‘ بم تیار کیا ہے جو دو سو فٹ تک کنکریٹ کی تہہ میں گھس کر پھٹ سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/14I2y
تصویر: Public domain

امریکی جنرل نے کہا کہ یہ بم گزشتہ سال فوج کے حوالے کیا گیا تھا اور یہ ان ملکوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ایران کی طرح زمین کی گہرائی میں جوہری تنصیبات بنا رکھی ہیں۔

جنرل ہربرٹ کارلائل نے واشنگٹن میں امریکی دفاعی پروگراموں کے بارے میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  کہا، ’یہ بہت بڑا بم ایک عظیم ہتھیار ہے۔ ہم اسے بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ اس وقت امریکی ہتھیاروں میں شامل ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم اسے استعمال کریں گے۔‘

جنرل کار لائل کے مطابق شام یا ایران کے ساتھ تنازعے کی صورت میں امریکی فوجی کارروائیاں پینٹاگون کی اس نئی سوچ سے متاثر ہو کر کی جائیں گی، جسے فضائی اور سمندری لڑائی کہا جا رہا ہے۔

اس حکمت عملی کے تحت فضا اور سمندر کے علاوہ خلا اور سائبر اسپیس سے بھی کارروائیاں کی جائیں گی جن میں سیٹلائٹوں کے علاوہ خفیہ طیاروں اور بغیر پائلٹ کے جہازوں کا استعمال بھی شامل ہیں۔

Iran Luftaufnahme vom Atomanlage
ایران کی زیر زمین جوہری تنصیبات کو ’بنکر بسٹر‘ بم تباہ کر سکتے ہیںتصویر: DigitalGlobe

ایران کے اپنے متنازعہ جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہے تاہم سفارت کاری کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ رواں ہفتے کے اوائل میں امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ یروشلم ایران کے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کرے۔ تاہم امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ اگر سفارت کاری اور پابندیوں نے اثر نہ دکھایا تو تہران کے خلاف عسکری کارروائی کا امکان بھی کھلا ہے۔

سیکرٹری دفاع لیون پینیٹا نے جمعرات کو نیشنل جرنل کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے خیال میں اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے پر عزم ہے۔

عالمی طاقتوں کا خیال ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنانے پر کام کر رہا ہے جبکہ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لیے ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد